کالمز

گلگت بلتستان پر موسمیاتی تبدیلی کا قہر

 ‘ہر طرف پانی ہی پانی ہے مگر پینے کو بوند نہیں’

مشہور انگریزی شاعر سیموئل ٹیلر کولرج کا یہ مصرع اب صرف ایک شاعرانہ خیال نہیں رہا بلکہ گلگت بلتستان کی وادیوں میں روزمرہ کی حقیقت بن چکا ہے۔ ایک ایسا خطہ جو اپنی برفانی چوٹیاں، شفاف جھیلیں، بہتے دریا اور دلفریب قدرتی مناظر کے لیے مشہور ہے۔ مگر اس تمام حسن کے نیچے ایک ایسا ماحولیاتی سانحہ جنم لے رہا ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جو دنیا کے تازہ پانی کے عظیم ذخائر کو برفانی گلیشیئرز کی شکل میں سنبھالے ہوئے ہے، وہاں کے باسی اب صاف، محفوظ اور قابل استعمال پانی کے لیے ترسنے لگے ہیں۔ برف اور برفباری سے گھرا یہ خطہ آج ایسی پیاس میں گرفتار ہے جہاں لوگ ہر بوند پانی کے لیے لمبے سفر طے کرتے ہیں، کھیت سوکھتے دیکھتے ہیں، اور ہر لمحہ اس خوف میں جیتے ہیں کہ کب کوئی سیلاب ان کے گھر، فصل اور مویشی بہا لے جائے۔

گلگت بلتستان کو دنیا کی چھت کہا جاتا ہے، جہاں قطبی خطوں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئرز اور بلند ترین پہاڑ واقع ہیں۔ یہ گلیشیئرز پاکستان کے لیے زندگی کا ذریعہ سمجھے جانے والے دریائے سندھ کو پانی فراہم کرتے ہیں۔وہ دریا جو ملک کی دو تہائی زراعت، توانائی اور گھریلو ضروریات کا انحصار ہے۔ لیکن اب یہی گلیشیئرز عالمی درجہ حرارت میں خطرناک اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ سائنسی اعداد و شمار کے مطابق یہ خطہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ اس تیزی سے پگھلاؤ نے سینکڑوں نئی برفانی جھیلوں کو جنم دیا ہے، جن میں سے کئی نہایت غیر مستحکم اور خطرناک ہیں۔ جب یہ جھیلیں ٹوٹتی ہیں، تو اچانک اور شدید سیلاب برپا ہوتا ہے جسے عرف عام میں گلاف کہا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ایسے گلاف کے نتیجے میں حسن آباد، شمشال، بدصوات، درکوت اور بگروٹ جیسے علاقوں میں بے پناہ تباہی دیکھی گئی ،گھر، کھیت، مویشی، پل، سڑکیں اور زندگیاں لمحوں میں بہہ گئیں۔

گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات صرف ماحول تک محدود نہیں، بلکہ انسانی زندگی پر اس کے گہرے اور تلخ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہاں کی پہاڑی بستیوں میں زندگی کا دارومدار کھیتی باڑی، مال مویشی، اور قدرتی چشموں پر رہا ہے۔ لیکن اب چشمے خشک ہو رہے ہیں، موسم غیر متوقع اور ناقابلِ بھروسا ہو چکے ہیں اور کھیتی کے روایتی موسم بدل گئے ہیں۔ خواتین اور بچے، جو پانی بھرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اب روزانہ کئی میل دور جا کر پانی لاتے ہیں۔ فصلیں بے وقت بارش یا شدید گرمی کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں، اور چراگاہیں سکڑنے سے مویشی پالنا مشکل ہو چکا ہے۔ جو لوگ ان سانحات سے گزرتے ہیں، وہ صرف مالی نہیں، بلکہ نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بارش کی آواز نیندیں چھین لیتی ہے، اور سردیوں کی اچانک گرمی خطرے کی علامت بن چکی ہے۔

ان نامساعد حالات میں نوجوان شہروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ ان کی یہ ہجرت صرف محنت مزدوری کی تلاش نہیں بلکہ ثقافتی زوال کی ایک اور کہانی ہے۔ زمین، پانی اور برف سے جُڑی صدیوں پرانی دانش، جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی تھی، اب خاموشی سے ختم ہو رہی ہے۔ پہاڑی معاشرہ رفتہ رفتہ اپنی جڑوں سے کٹتا جا رہا ہے، اور ہر گزرتے برس کے ساتھ نوجوان اپنے آبا کی زمینوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ المیہ اس لیے بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ گلگت بلتستان اور پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر سب سے زیادہ نقصان انہی کو سہنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک واضح مثال ہے "موسمیاتی ناانصافی ” کی کہ جہاں امیر صنعتی ممالک کی سرگرمیوں کا بوجھ غریب اور دور دراز پہاڑی برادری اٹھا رہی ہیں۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، آفات کی شدت بڑھ رہی ہے اور گلگت بلتستان کے عوام دنیا سے صرف ہمدردی نہیں، بلکہ عملی تعاون کے طلبگار ہیں۔

اس تلخ حقیقت کے باوجود کچھ امید کی کرنیں روشن ہیں۔ مقامی کمیونٹیز، غیر سرکاری تنظیمیں اور عالمی ادارے مل کر اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ادارے خطرے والے علاقوں میں ابتدائی وارننگ سسٹمز نصب کر رہے ہیں، مقامی ریسکیو ٹیموں کو تربیت دے رہے ہیں اور ماحولیاتی مزاحمت پر مبنی ترقیاتی منصوبے متعارف کروا رہے ہیں۔ بعض وادیوں میں اسکول کے بچوں کو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ ایک باشعور نسل تیار ہو۔ تاہم یہ سب کوششیں ابھی بہت چھوٹے قدم ہیں، ایک طویل، دشوار اور صبر آزما سفر کا آغاز۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عالمی شراکت دار ایک مشترکہ، دیرپا   اور تجربات پر مبنی حکمت عملی پر عمل کریں، جو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خطے کو ایک پائیدار مستقبل کی طرف لے جائے۔

گلگت بلتستان کا مستقبل ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر گلیشیئرز اسی رفتار سے پگھلتے رہےاور ہم نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے، تو اس کے نتائج صرف اس خطے تک محدود نہیں رہیں گے۔ پورے پاکستان کا انحصار انہی پہاڑوں سے بہنے والے پانی پر ہے۔ دریاؤں، زراعت اور شہروں کی صحت انہی شمالی علاقوں کی خیریت سے جڑی ہے۔ گلگت بلتستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مقامی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک قومی اور عالمی سوال ہے۔

گلگت بلتستان ایک خاموش لیکن زوردار صدا دے رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مستقبل کا اندیشہ نہیں، بلکہ حال کی بے رحم حقیقت ہے۔ یہ ایک خاموش مگر تیز رفتار طوفان ہے جو سب کچھ لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ان پہاڑوں کے لوگ فقط اپنے لیے نہیں، ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ اگر ہم نے ابھی بھی توجہ نہ دی، تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کولرج کی وہ سطر صرف شاعری نہیں، بلکہ ہماری حقیقت بن جائے گی

"پانی، پانی ہر طرف، مگر پینے کو ایک بوند نہیں۔”

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button