انسانیت کا رشتہ اصل رشتہ ہے

انسان فطرتا نیکو کار ہے۔ راستے میں چلتے ہوئے کوئی شخص گر جائے اور اس کو چوٹ آجائے تو آس پاس کے لوگ جمع ہوجاتے ہیں، ان کو پانی پلاتے ہیں، ان کے ہاتھ پاوں دباتے ہیں اور ان کو ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح سڑک پر کوئی گاڑی کا حادثہ رونما ہوجائے، قدرتی آفات کے نتیجے میں کوئی شخص متاثر ہو، کسی حادثے میں کوئی زخمی ہوجائے ، کسی کو دل کا دورہ پڑے تب بھی لوگ بھاگم بھاگ ان کی مدد کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر وہ جانبر نہ ہوسکے تو ان کی نعش کو تعظیما اٹھاتے ہیں ، کسی ہسپتال یا مردہ خانے میں پہنچاتے ہیں اور ان کے لواحقین کے حوالے کرتے ہیں۔ اسی طرح راہ چلتے ہوئے اچانک کوئی شخص مدد کے لئے پکارے توچاروں طرف سے لوگ اس کی طرف لپک پڑتے ہیں اور ان کی ہرممکن مدد کرتے ہیں۔
آپ اپنے آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ہر کسی نے زندگی میں کئ اجنبی لوگوں کی مدد کی ہوگی، اگر خود مدد نہیں کی ہے تو کسی کو مدد کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ اگر ایسا بھی نہیں ہے تو ضرور مدد کرنے والوں کی خبریں سنی اور پڑھی ہونگی۔ آجکل تو سوشل میڈیا میں ایسی ہزاروں خبریں گردش میں ہوتی ہیں جن میں مشکل میں لوگوں کی مدد کرنے والے ہیروز کا ذکر ہوتا ہے۔ حالیہ سوات میں سیاحوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے میں ایک نوجوان کی تصویر وائرل ہوئی تھی جس نے کئ جانیں بچائیں، کئ سال قبل گلگت میں ایک نوجوان ابرار نے کنوداس پرانے پل سے چھلانگ لگا کر سینکڑوں گز گہرے دریا میں گرنے والی دو سکول کی بچیوں کو بچا کر قومی اعزازات حاصل کئے۔ اسی طرح حالیہ دنوں تھک نالہ میں مقامی لوگوں نے سیاحوں کی مدد کی جس کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ کچھ سال قبل گلگت بلتستان میں لوگوں نے پھنسے ہوئے سیاحوں کے لئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دئے۔ ہر سال کئ واقعات میں مقامی رضاکار آگے بڑھ کر زخمیوں کی مدد کرتے اور لاشیں نکالتے ہیں۔ دیامر کے سونیوال قبیلے کے دو مشہورغوطہ خور گلگت بلتستان میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف حادثات میں دریا سے لاشیں نکالنے کے لئے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ماضی میں غذر سے تعلق رکھنے والے سابق ایس ایس پی نظرب خان، اور صبیدار ریٹائرڈ حوس خان کو دریا سے لاشیں نکالنے کے اعزاز میں تمغہ شجاعت سے نوازا گیا تھا۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض نے کویڈ کے دوران اپنی جان کی قربانی دیکر لوگوں کا علاج کیا اور ان کو بعد ازاں قومی اعزاز سے نوازا گیا۔ اسی طرح بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قدرتی آفات، روڑ حادثات سمیت مختلف مشکل حالات میں متاثرہ لوگوں کی بے لوث مدد کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔
ایسی سینکڑوں مثال ہماری حالیہ تاریخ میں جابجا ملتی ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنی زندگیاں اس مقصد کے لئے وقف کرتے ہیں جیسے عبدالستار ایدھی تھے۔
مدد کرنے والے یہ لوگ دفتر، گلی، محلہ، شہر، پارک، سڑک، مارکیٹ سمیت ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ گویا دنیا ان مدد کرنے والے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ ایمرجنسی میں مدد کرنے والے یہ لوگ مدد کے لئے پکارنے والے کا نام، ولدیت، خاندان، قبیلہ، علاقہ، نسل ، مذہب، فرقہ ، زبان، قومیت، ایڈریس وغیرہ کچھ بھی نہیں پوچھتے ہیں۔ یہ صرف ایک رشتے کی بنیاد پر مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں وہ ہے انسانیت کا رشتہ۔
ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر انسانیت موجود ہوتی ہے وہ تب جاگتی ہے جب کوئی اس کو جگاتا ہے۔ یہ انسانیت دوسرے انسان کو مشکل میں دیکھ کر یا ان کی چیخ و پکار سن کر ایک دم جگ جاگتی ہے۔ جو انسان پکارتا ہے اس کی فریاد مدد کرنے والے انسان کے دل کو چھوتی ہے، اس کے اندر کا فطری و اصلی انسان یک دم جاگ جاتا ہے اور وہ بغیر توقف کے آگے بڑھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام حالات میں بے شمار ایسے واقعات ہوتے ہیں جن سے انسانیت شرما جاتی ہے ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ انسان دوسرے انسان پر رحم نہیں کھاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہے کہ عام حالات میں ایک انسان دوسرے انسان سے اچھا سلوک نہیں کرتا ہے؟ جب کہ وہی انسان جو عام حالات میں نیکی کی طرف مائل نہیں ہوتا وہ اچانک کسی تکلیف میں مبتلا انسان کی پکار پر لبیک کہتا یا کسی کو مصیبت میں دیکھ کر خود آگے بڑھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔
عام حالات میں انسان کی وہ سرشت سو جاتی ہے ، جو اس کے اندر کا اصل انسان ہے وہ کہیں کھو جاتا ہے جب کہ اس کا مفاد، لالچ، خوف ،مقابلے کا رجحان اور دیگر غلط خصلتیں جاگ رہی ہوتی ہیں۔ عام حالات میں انسان اپنی مشکلات بھول چکا ہوتا ہے ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کا مفاد سب سے مقدم ہے اس لئے وہ اپنے اندر کے انسان کو سونے پر مجبور کرتا اور بری خصلتوں کو آگے بڑھ کر اپنی واردات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
پھر وہ انسان مذاہب، قومیتوں، قبائل، فرقوں، زبانوں، علاقوں، خاندانوں اور نظریات میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہ تقسیم اس وقت مزید مستحکم ہوجاتی ہے جب ان کو اس تقسیم کی تعلیم وتربیت تواتر سے ملتی رہتی ہے۔ گھر، سکول، مدرسہ، یونیورسٹی، میڈیا، فلم، ڈرامہ، کتاب، استاد، عالم وغیرہ مل کر ان کو دن رات کہیں نہ کہیں تقسیم کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کو سیکھاتے ہیں کہ تم باقی انسانوں کے مقابلے میں افضل ہو، تم زیادہ درست راستے پر ہو، تم کسی کے لئے اپنے آپ کو قربان مت کرو، تم اپنے قبیلہ، فرقہ ، سیاسی تنظیم، علاقہ، زبان، ادارہ اور علاقہ کا سوچو باقی کسی کا مت سوچو، تم لوگوں سے چھین کر کھاو، تم لوگوں سے نفرت کرو، تم سوائے اپنے جیسے لوگوں کے علاوہ کسی سے میل جول مت رکھو، تم اپنی سوچ کے مطابق کتاب پڑھو، تم اپنے ہم خیال لوگوں سے ملو، تم اپنے آپ کو باقیوں کی نسبت درست ثابت کرو تاکہ تم ایک کامیاب اور منفرد انسان بن سکو۔
یہ تعلیم و تربیت وقت کے ساتھ انسانوں کو دوسرے انسانوں سے دور کر دیتی اور ان کے لئے بغض، کینہ، حسد، غصہ ، نفرت اور عداوت سیکھاتی ہے۔ عمر کے ابتدائی حصے میں یہ بری خصلتیں کم ہوتی ہیں لیکن عمر کے ساتھ یہ بڑھ جاتی ہیں اور چالیس پچاس سال کی عمر میں یہ مکمل شخصیت تشکیل دیتی ہیں۔ جو لوگ بچپن سے رضا کار ہیں وہ پچاس سالوں کے بعد بھی رضا کار ہوسکتے ہیں لیکن عموما نوجوانوں کے اندر رضاکارانہ خدمت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے اور ان کے ندر طاقت بھی ہوتی ہے۔
واپس موضوع کی طرف آتے ہیں اور اپنے اپنے گریباں میں جھانکتے ہیں کہ ہمارے اندر کا انسان عام حالات میں کیوں سویا ہوتا ہے؟ ہمیں اندر کے انسان کو جگانے کی ضروت ہے اور اس کو ہر وقت جاگتے رہنا چاہئے۔ یہ انسان جب جاگے گا تو یہ اپنے اصل رشتے کی قدر کرے گا جس کا نام انسانیت ہے۔ یہ رشتہ تمام رشتوں سے مقدم، دیرنہ اور حقیقی ہے۔
علم نفسیات میں اس کو گڈ سامیٹرین ایفیکٹ کہا جاتا ہے جس کے تحت الترویزم رویہ یعنی نیک رویہ پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کو رحمدلی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آگے بڑھ کر بے لوث اور بے غرض کسی کی مدد کرنے کی شہہ ملتی ہے۔ ، یہ ایک قانون کا نام بھی ہے جو مختلف ممالک میں رائج ہے جس کے تحت ان افراد کو قانونی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو ایمرجنسی میں دوسرے لوگوں کی مدد کرتے ہیں، جیسے کسی لڑائی جھگڑے میں زخمی ہونے والے شخص کو قانونی پیچیدگیوں کو خاطر میں لائے بغیر مدد یا علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ قانون مدد کرنے والے یا علاج کرنے والے فرد کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آخر میں ہم بابوسر سیلاب میں متاثرہ سیاحوں کی مدد کرنے والے دیامر کے مقامی رضاکاروں کو خراک تحسین پیش کرتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ دیامر سمت گلگت بلتستان میں یہ جذبہ ہمیشہ ذندہ رہے گا۔