ہیلو فورس کمانڈر! ہیلو چیف سیکرٹری! ہیلو آئی جی!

کیا آپ سن رہے ہیں؟
گلگت بلتستان میں منشیات کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ ہسپتالوں سے لے کر کالجوں کے ہاسٹلز تک، نوجوانوں کی رگوں میں آئس اور چرس دوڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ… آپ لوگ کہاں ہیں؟
ہم نے آپ پر اعتماد کیا ہے، اب عمل کی گھڑی ہے۔
ہم یہ نہیں چاہتے کہ آپ ہمیں تسلیاں دیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں۔
جو بیچنے والے ہیں، ان پر ہاتھ ڈالیں۔ جو سرپرست ہیں، انہیں بے نقاب کریں۔
ہیلو جی بی کے غیور نوجوانو!
کیا صرف فورسز کی ذمہ داری ہے؟
نہیں!
یہ خطہ ہمارا ہے، ہماری ماؤں کی گود ہے، ہمارے بچوں کا مستقبل ہے۔
اٹھو!
اپنی بستیوں کو منشیات کے گٹر میں گرنے سے بچاؤ۔ آواز بلند کرو، سوال پوچھو، مزاحمت کرو!
راقم نے جب اس موضوع پر ایک مختصر کالم لکھا تو معروف شاعر و لکھاری ، استادحفیظ شاکر صاحب نے تبصرے کی شکل میں ایک مکمل کالم رقم کر دیا، دل میں اتر جانے والا تجزیہ، اور راہِ نجات کے کچھ ٹھوس حل بھی پیش کیے۔
ملاحظہ کیجیے، من و عن شئیر کررہا ہوں ، کیونکہ یہ صرف الفاظ نہیں، ایک بیداری کا پیغام ہے…وہ لکھتے ہیں :
"اس موضوع(منشیات) پر بول بول کر تھک گئے۔علمائے کرام،سوشل ایکٹوسٹ ہوں یا دیگر نام نہاد سٹیک ہولڈرز،ایک ایک سے بھرپور نسشتیں اسی موضوع کو لے کر خاکسار نے کیں ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان میں جوں تک رینگی ہو۔کھوکھلے دعوے اور بس۔جن ذمہ دار لوگوں کی جانب آپ نے اشارہ کیا ہے نہ وہ بے بس ہیں نہ بے حس بل کہ شنید یہ ہے کہ ان میں سے چند ایک اس گھناؤنے دھندے کو بڑھاوا میں برابر کے شریک ہیں۔یہ افواہ بھی ہے کہ،درون خانہ طے ہوا ہے کہ اس علاقے کی یوتھ کو نشے کی لت میں لگا کر ان کی صلاحیتوں کو سبوتاژ کیا جائے تا کہ آنے والے وقتوں میں کُھل کھیلا جا سکے۔اگر اب بھی علمائے کرام اور اساتذہ جن کے پاس ہمہ وقت پنڈال ہوتا ہے،ہوش میں نہیں آئے تو مستقبل قریب میں آپ کے پاس چور،ڈکیت،نشئی اور اجرتی قاتلوں کی ایک فوج ہو گی۔نہ آپ کا گھر محفوظ ہو گا نہ مساجد و امام بارگاہیں۔
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان بھر کے تمام علمائے کرام اور مشائخ عظام کی ایک میٹنگ بلائی جائے۔جس میں اساتذہ ،وکلا،سماجی کارکن اور مثبت سوچنے والے یونیورسٹی اور کالجوں کے طلبا اور طالبات بھی شریک ہوں۔اس کے بعد ایک تحریک کی شکل میں باالخصوص گلگت شہر اور بالعموم تمام اضلاع میں آگاہی مہم چلائی جائے۔بے حسی کی چادریں اوڑھ کر سوئے ہوئے والدین کے خفتہ و مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑا جائے۔اور اس وقت تک نہ رکا جائے جب تک نوجوان رگوں میں انڈیلے گئے اس زہر کا مداوا نہیں ہوتا۔ہمیں اس حوالے سے فورس کمانڈر،چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف جی۔بی پولیس کو بھی حالات کی سنگینی اور ذمہ دار اداروں کے غیر ذمہ دارانہ خاموشی کے حوالے سے آگاہ کرنا ہو گا۔اعلیٰ عدالتوں کے ججز سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لئے موجود اداروں کو سوموٹو ایکشن کے زریعے ایکٹیو کروا سکیں۔
اس لعنت کو روکنے کے لئے پورے اخلاص اور قومی درد سے اگر کوئی سرکاری ادارہ کام شروع کرے گا تو ہم سب کو اس کی پشتیبانی کرنی ہو گی۔گھر گھر،گلی گلی منشیات کے خلاف ایک نان سٹاپ مہم چلانی ہو گی تا کہ یہ علاقہ منشیات کی لعنت سے پاک ہو سکے۔ورنہ میرے آپ کے لکھنے اور چیخنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔ایک منظم نان سٹاپ تحریک ہی اس کو روک سکتی ہے۔۔۔۔۔سلامت رہیں”