کندوس کے سیلاب متاثرین کی مشکلات اور حکومت بے حسی

گانچھے کی خوبصورت وادی کندوس کا گاؤں چھوغو گرونگ ایک بار پھر قدرتی آفت کا شکار ہو چکا ہے۔ رواں ماہ آنے والے ہولناک سیلاب نے اس پُرامن بستی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ پرانی تباہی کے زخم ابھی بھرے نہ تھے کہ قدرت کی ایک اور قہر انگیز لہر نے لوگوں کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ اس بار انچاس سے زائد گھر مکمل طور پر ملبے تلے دب گئے۔ درجنوں خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ زمین، جو کبھی آباد گھروں، ہنستی بستی زندگیوں اور امیدوں کا مرکز تھی، آج ملبے، پانی اور خاموشی کا منظر پیش کر رہی ہے۔
سیلاب نے نہ صرف مکانوں کو بہا لیا، بلکہ برسوں کی جمع پونجی، یادیں، مال مویشی، گھریلو سامان اور روزگار کے ذرائع بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیے۔ بے گھر متاثرین کے پاس اب نہ کوئی چھت ہے، نہ دیواریں، نہ خوراک کا ذخیرہ، اور نہ ہی مستقبل کی کوئی امید۔ اگرچہ خیمے وقتی پناہ کا ذریعہ ہیں، مگر شدید گرمی، بارش، بیماری اور عدم تحفظ نے ان خیموں کو بھی مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے) کے تعاون سے متاثرین کو خیمے اور چند روزہ راشن فراہم کیے ہیں، مگر یہ اقدامات نہایت محدود، وقتی اور غیر مؤثر ہیں۔ اصل مسئلہ متاثرین کی مستقل بحالی اور آباد کاری کا ہے، جس پر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی سنجیدہ اقدام سامنے نہیں آیا۔ مقامی لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ہر سال قدرتی آفات کے نام پر بجٹ تو مختص ہوتے ہیں، منصوبے بھی بنتے ہیں، مگر ان کا عملی فائدہ زمینی حقائق میں کیوں نظر نہیں آتا؟
زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سنگین صورتحال میں بھی منتخب عوامی نمائندے اور حکومتی کارکردگی محض بیانات، وعدوں اور دلاسوں تک محدود ہیں۔ پچھلے تین دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے جس نمائندے کو عوام نے اعتماد سے چھے بار منتخب کیا، آج وہ حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ ہے کئی دنوں سے صرف زبانی تسلیاں دے رہے ہیں۔ عملی طور پر بحالی کا کوئی منصوبہ، کوئی مالی امداد یا مستقبل کی حکمتِ عملی اب تک سامنے نہیں لائی گئی۔ نتیجتاً، متاثرین کا ہر دن مزید بے بسی، مزید اذیت اور گہرے زخموں کا پیغام لے کر طلوع ہوتا ہے۔
ادھر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی آمد کا ذکر بھی صرف وعدوں تک محدود رہا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ماضی میں کوئی آفت آئی، وزیر اعلیٰ نے دورہ تو کیا، تصاویر بنوائیں، اعلانات اور دلاسے دیے، مگر ان کا کوئی عملی فائدہ نہ ہوا۔ اب عوام کی برداشت کی حد ختم ہو چکی ہے۔ وہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر کب تک خالی وعدے ان کے دکھوں کا مداوا بنتے رہیں گے؟ کب تک انہیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے فریاد کرنی پڑے گی؟
چھوغو گرونگ کے متاثرین کو اب محض وقتی امداد نہیں، بلکہ پائیدار اور عملی بحالی منصوبے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کی مالی معاونت، رہائشی بحالی، طبی امداد اور روزگار کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ خالی بیانات اور کاغذی منصوبے ان بے بس انسانوں کے لیے کسی کام کے نہیں۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزمائش میں گھِری اپنی رعایا کو تنہا نہ چھوڑے۔ کیونکہ اگر حکومت نے اب بھی خوابِ غفلت سے آنکھ نہ کھولی، تو یہ صرف افراد کا نہیں، بلکہ پورے نظام کا المیہ بن جائے گا۔ اور تاریخ ایسے المیوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔