
گلگت (خبر نگار خصوصی) گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے سرگرم رہنما جاوید اقبال، المعروف جاوید ناجی، کو دو روز قبل سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے تانگیر کے ایک دور افتادہ علاقے میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔
مقتول کے والد امیر حمزہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق، جاوید ناجی اپنی اہلیہ نشاد پروین کے ہمراہ ایک گلیشیائی ندی کے قریب موجود تھے کہ اس دوران دار خان اور افسر خان نامی افراد نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں جاوید ناجی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
تعزیرات پاکستان کی دفعات، ۳۰۲، ۳۱۱، ۳۲۴ اور ۳۳۷ ف وغیرہ کے تحت درج مقدمے کے ایف آئی آر میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ اس المناک واقعے کے بعد، ملزم دار خان نے مبینہ طور پر ایک گھر کے صحن میں چمن نامی خاتون پر "ناجائز تعلقات کے شبے” میں گولیاں چلائیں، جس سے وہ بھی موقع پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ مقتولہ کو ایف آئی آر میں ملزم افسر خان کی اہلیہ قرار دیا گیا ہے۔ فائرنگ کے دوران صحن میں موجود تین دیگر افراد، جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں، زخمی ہو گئے۔
واقعے کے بعد جاوید ناجی کی اہلیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے شوہر پر ناجائز تعلقات کا الزام بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ملزمان نے انہیں اور ان کے بچوں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے واقعے کی مکمل تحقیقات اور ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ جاوید ناجی انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل تھے اور اپنے نظریات کی بنا پر طویل عرصے سے ریاستی دباؤ کا سامنا کر رہے تھے۔
جاوید ناجی گلگت بلتستان میں ایک صاف گو، عوامی حقوق کے سرگرم علمبردار اور توانا آواز کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی ناگہانی موت پر پورے خطے میں سوگ کی فضا ہے۔ متعدد حق پرست تنظیموں اور سماجی و سیاسی رہنماؤں نے اس واقعے پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے شفاف، غیرجانبدارانہ تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔