کالمز

شیرگر, وہ گھوڑا جو تاریخ میں امر ہو گیا

کچھ کہانیاں وقت کی گرد میں چھپ جاتی ہیں، مگر کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ اور بھی چمکنے لگتی ہیں  جیسے آسمان پر اکیلا چمکتا ستارہ شیرگر بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے، ایک گھوڑا، جو صرف رفتار کا استعارہ نہیں، وفاداری، عظمت اور دکھ کی ایک ناقابلِ فراموش داستان بن گیا۔

آغا خان خاندان کو صدیوں سے اعلیٰ نسل کے گھوڑوں سے گہرا تعلق اور شغف رہا ہے ۔ ان کے اصطبل میں ممتاز محل بہرام خسرو، مہاراج طلیاراور زرکاوہ جیسے نایاب نام گونجتے رہے۔ مگر ان سب میں سب سے درخشاں ستارہ تھا شیر گر نام گھوڑا۔

شیر گر 1980 اور 1981  میں پہلی بار ریس  کے میدان میں قدم رکھا  لیکن شہرت اسے  برطانیہ کی تاریخ ساز ڈربی ریس میں ملی باقی تمام گھوڑوں کو ناقابلِ یقین مارجن سے شکست دے کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ کارنامہ آج بھی دو صدیوں پرانی ڈربی کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ شیر گڑھ 1981 کی دہائی میں  10 میٹر  کی لمبائی سے ریس جیتنے والا گھوڑا شیر گڑھ   گھوڑوں کی کی ریس کی دنیا کا بادشاہ تھا،دنیا کی 202 سالہ تاریخ میں   شیر گڑھ  نے 1981  کی دہائی میں  ایپسیم ڈربی   ریس   10 میڑ کی لمبائی سے جیت کر یورپ دنیا  کو حیران کر دیا تھا۔

وہ سال شیرگر کے نام رہا۔ چھ میں سے پانچ ریسیں جیت کر وہ ناقابلِ تسخیر کہلایا۔ لیکن اگلے برس جب کارکردگی ماند پڑی تو پرنس کریم آغا خان نے اُسے اعزاز کے ساتھ ریس سے ریٹائر کر کے آئرلینڈ منتقل کر دیا۔ اس کی آمد پر میڈیا نے اُسے قومی ہیرو قرار دیا۔ اُس وقت شیرگر کی مالیت ایک کروڑ پاؤنڈ تھی، اور وہ نئی نسل کے بہترین گھوڑوں کی افزائش کا خواب بن چکا تھا۔

مگر پھر آٹھ فروری 1983 کی وہ سرد رات آئی  جب ایک خالی سڑک پر سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک سیاہ گاڑی آہستہ سے فارم ہاؤس کے قریب آ کر رُکی۔ نقاب پوش افراد اترے، گن پوائنٹ پر تربیت کار کو یرغمال بنایا، شیرگر کو پہچانا، اور گھوڑا لے کر رات کی تاریکی میں گم ہو گئے۔ جاتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر پولیس کو اطلاع دی گئی، تو انجام بھیانک ہوگا۔

اگلی صبح، جیسے آسمان پر دھوپ نہیں بلکہ سنسنی چھا گئی ہو، دنیا کی سب سے قیمتی ریس ہارس کے اغوا کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اغواکاروں نے 20 لاکھ پاؤنڈ تاوان کا مطالبہ کیا، مگر آغا خان نے انکار کر دیا۔ انکار کی دو وجوہات تھیں ایک، تاوان دینے کا مطلب آئندہ مزید اغوا کا دروازہ کھولنااور دوسرا، شیرگر اب اکیلے ان کی ملکیت نہ تھا، بلکہ 30 سے زائد حصے داروں کا اثاثہ بن چکا تھا۔12فروری کے بعد رابطے منقطع ہو گئے۔ پولیس نے جستجو کی تمام حدیں عبور کر دیں  روایتی تحقیق، نفسیاتی تجزیے، یہاں تک کہ جادوگروں تک سے رجوع کیا گیا مگر شیرگر کو  جیسے زمین نگل گئی یا آسمان چیر کر لے گیا۔

وقت گزرتا گیا  16 برس بیت گئے۔ آخرکار، 1999 میں ایک قیدی نے خاموشی توڑی۔ اُس نے اعتراف کیا کہ شیرگر کو آئرش رپبلکن آرمی نے اغوا کیا تھا تاکہ اپنی کارروائیوں کے لیے فنڈ اکٹھا کرے۔ مگر گرفتاری کے خوف، ناکافی تربیت، اور گھوڑے کی زخمی حالت کے سبب، وہ مجبور ہو گئے۔ شیرگر کی ایک ٹانگ ٹوٹ چکی تھی۔ پولیس کے بڑھتے چھاپوں سے گھبرا کر انہوں نے اس بے بس جانور کو گولیوں سے بھون ڈالا  اور کہیں گمنام دفن کر دیا۔

شیرگر کی لاش کبھی نہیں ملی۔ مگر اُس کی یاد نے کبھی دم نہیں توڑا۔

1999  میں آغا خان نے شیر گر کپ ریس کا آغاز کیا جہاں آج بھی دنیا بھر کے تیز رفتار گھوڑے اُس یاد گار نام کے بینر تلے دوڑتے ہیں جیسے وہ سب شیرگر کے خواب کو زندہ رکھنا چاہتے ہوں۔ شیرگر، اب صرف ایک گھوڑا نہیں  وہ ایک عہد، ایک فکر، ایک دُکھی مگر لازوال داستان ہے، جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ وقار، محبت، قربانی اور تقدیر کے سنگم پر لکھی گئی کہانیاں کبھی مٹی میں دفن نہیں ہوتیں، بلکہ دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہیں۔

آپ کی رائے

comments

نور الہدی یفتالی

نورالہدی یفتالی بالائی چترال کے علاقے مستوج سے تعلق رکھنے والے لکھاری ہیں

متعلقہ

Back to top button