کالمز

سانحہ دنیور اور حکومتی بے حسی

صفدر علی صفدر

گلگت کے دنیور نالہ میں سیلاب سے تباہ شدہ واٹر چینل کی بحالی کے دوران اچانک مٹی کا بھاری تودہ گرنے سے سات مقامی رضاکار مٹی تلے دب کر جاں بحق ہو گئے۔ یہ کوئی عام حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک دل چیر دینے والا المیہ تھا، جس نے پورے علاقے کو سوگوار کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی معاوضے کے بغیر، بیس دن سے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی بندش ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

چند روز قبل دنیور نالے میں غیر معمولی سیلاب نے تباہی مچا دی تھی۔ نالے کے آس پاس کے رہائشی مکانات، کھڑی فصلیں، درخت، سب کچھ تہس نہس کر دیا گیا تھا۔ اسی دوران دنیور کا مرکزی واٹر چینل اور پینے کے صاف پانی کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا، جس سے علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

مقامی لوگوں نے اس مسئلے کو کئی بار میڈیا اور سوشل میڈیا پر اجاگر کیا، حکومتی ذمہ داران سے ملے، مگر کسی ایک کو بھی مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدام اٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔ مجبوراً مقامی رضاکاروں اور علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چینل کی بحالی کا کام شروع کردیا، جو کئی روز سے دن رات اس کام میں مصروف تھے۔ ان کا خواب تھا کہ واٹر چینل بحال ہو اور زندگی پھر سے رواں ہو جائے، مگر قسمت اور حکومتی بے حسی نے ان کی قربانی کو ایک اور اندوہناک سانحے میں بدل دیا۔

یہ حادثہ ایسے وقت میں پیش آیا جب گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کے قہر سے گزر رہا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے اس خطے میں تباہی کے ایسے مناظر رقم کیے جنہیں بیان کرنا بھی دل دہلا دیتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے، درجنوں پل بہہ گئے، سڑکیں کٹ گئیں، ہسپتال، سکول، عبادت گاہیں سب برباد ہوگئے، بجلی، پانی اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔

شتیال سے لے کر شمشال اور سیاچن سے شندور تک کوئی علاقہ، کوئی گاؤں ایسا نہیں جو اس آفات سماوی سے بچ گیا ہو۔ موسمیات و ماحولیات کے ماہرین چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن موڑ پر ہے، ہر سال اربوں ڈالر کے نقصانات ہو رہے ہیں، مگر اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

بظاہر ہمارے وزراء، وزیر اعلیٰ، گورنر، وفاقی وزراء اور وزیراعظم تک قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ تو کرتے ہیں، مگر ان کا یہ دورہ متاثرین کی دل جوئی کے بجائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

قدرتی آفات کے خطرے سے دنیا کا کوئی ملک خالی نہیں۔ رواں سال ہی چین، بھارت، نیپال، برازیل، آسٹریلیا، ارجنٹینا، نائجیریا سمیت کئی ممالک میں قدرتی آفات کے واقعات رونما ہوئے، لیکن یہ خبر کہیں سے بھی موصول نہ ہوئی ہوگی کہ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں میں حکومت نے ہتھیار ڈال دیے اور عوام اپنی مدد آپ بحالی کے کاموں میں لگے رہے۔ کیونکہ ان کے پاس وسائل ہیں، نظام ہے، مخلص حکمران ہیں جو تباہ کن حالات میں بھی عوام کو کسی طور پر پریشانی کی نوبت آنے نہیں دیتے۔

یہ صرف دنیا کا بدقسمت خطہ گلگت بلتستان ہی ہے جہاں ایک طرف گاؤں خلتی غذر کے عوام سیلاب سے تباہ حال سڑک کے متبادل راستہ بنانے میں مصروف ہیں، تو دوسری جانب دنیور کے رضاکار تباہ شدہ واٹر چینل کی بحالی میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ مان لیجیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں، تو افرادی قوت، مشینری تو موجود ہے ناں جو کم از کم ان رضاکاروں کی مدد اور رہنمائی کے لیے متعین کر دیے جاتے، ماہرین ممکنہ خطرات کی نشاندہی کر دیتے۔

یہ کھلا ظلم ہے کہ ایک ایسا خطہ، جو موسمیاتی تبدیلی کے محاذ پر سب سے آگے ہے، اس کے لوگوں کو اپنی جانوں کے ساتھ تجربہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ سات شہداء صرف ایک حادثے کے شکار نہیں بلکہ حکومتی ناکامی، مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا زندہ ثبوت ہیں۔

شرم کا مقام تو یہ ہے کہ علاقے میں اس قدر تباہی اور ہنگامی صورتحال کے باوجود وزیراعلیٰ بیرونی دورے کے مزے لے رہے ہیں، چیف سیکریٹری اور انتظامی افسران بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوام آئے روز مسائل کا رونا روتے ہیں، بجلی، پانی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے احتجاج اور دھرنے ہوتے ہیں، مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کا احساس بھی ہوتا ہے۔ آخر ہمارے ان بے حس حکمرانوں کو کب شرم آئے گی، کب احساس ہوگا؟ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سانحہ بھی چند دن بعد بھلا دیا جائے گا، جیسے پچھلے حادثے بھلا دیے گئے۔ اس بار بھی یہی ہوگا کہ مرحومین کے ورثا کو چند پیسے تھما کر فوٹو سیشن ہوگا، پھر اس کی میڈیا میں خوب تشہیر کی جائے گی اور فائل بند کر دی جائے گی۔ نہ کوئی انکوائری ہوگی، نہ جوڈیشل کمیشن بنے گا، نہ ملزمان کا تعین ہوگا اور نہ سزا دی جائے گی، بلکہ الٹا واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔یہی ہمارا نظام ہے اور یہی اس خطے کا سب سے بڑا المیہ۔

اللہ تعالیٰ سانحہ دنیور کے شہدا کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور زخمیوں کو کامل و عاجل صحت عطا فرمائے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button