ملیلی: حسن و محبت کی دیوی

تحریر: عزیز علی داد
ترجمہ۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ
معاشرے کی جدیدیت کے ساتھ معیشت اور طرز زندگی کی تبدیلی کے عمل میں گلگت بلتستان کے دیومالائی کونیاتی دیوتا پہلے ہماری ثقافتی روایات سے ختم ہوتے گئے، پھر لوگوں کی اجتماعی یادداشت سے بھی غائب ہونے لگے ہیں ۔ اس عمل میں ہم نے کئی ایک دیومالائی مخلوق کا علم کھو دیا ہے۔ البتہ ہماری ثقافتی رسومات میں کچھ دیومالائی مخلوقات موجود ہیں جبکہ کچھ دیوتا دیویاں زبانوں کے بیچ اپنی نشانیاں چھوڑ گئے ہیں۔ شینا زبان میں ایک ایسی دیوی کی نشانی لفظ "ملیلی” میں پائی جاتی ہے۔
شینا زبان میں ملیلی کا مطلب خوبصورت ہے۔ یہ لفظ اب محض حسین لڑکی کے لیے استعمال ہوتا ہے، حالانکہ یہ ایک وسیع تصور کا محدود مطلب ہے جو گلگت بلتستان کی کونیات میں دیوتاؤں کے گروہ میں شامل ایک دیوی سے منسلک ہے۔
گلگت بلتستان کے قدیم دور میں ملیلی حسن اور محبت کی دیوی تھی جو ہر اس چیز میں حسن اور دلکشی بھرتی ہے جو سورج کے نیچے زمین پر موجود ہے۔
لہٰذا ایک خوبصورت و پیاری لڑکی کے لیے لفظ ملیلی کا مروجہ استعمال بنیادی طور پر حسن اور محبت کے افسانوی ماخذ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقامی کونیاتی تصور میں کوئی بھی خوبصورت چیز انسانوں کی تخلیق کردہ صفت نہیں بلکہ بعض اوقات یہ وصف کائنات کی آسمانی اور خالص مخلوق کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے شمن پرستوں اور ارواح پرستی کے کائناتی تصور میں ملیلی کو روحانی صفات سے نوازا گیا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دیومالائی مخلوقات میں سب سے زیادہ غیر مرئی مخلوق ہے۔ یہ سچ ہے کہ عام طور پر انسانوں کے پاس رنگوں کو دیکھنے کا فہم محدود ہے۔ اس کے برعکس ملیلی بے شمار ایسے رنگوں کی جھلک دکھاتی ہے جو عام انسانوں کے لیے قابل فہم نہیں ہیں۔ ملیلی کی یہ کثیر رنگی خصوصیات نہ صرف رنگوں کی بصری نمائندگی ہے بلکہ یہ ان زبانوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے ملیلی بات کرتی ہے۔ اسی لیے رنگوں کو ملیلی کے مزاج کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق کسی وادی کے اوپر بادلوں کا اندھیرا چھا جائے اور گرج چمک شروع ہو تو کہا جاتا ہے کہ ملیلی ماں ناراض ہوگئی ہے ۔ چنانچہ اسے منانے کے لیے لوگ خصوصی دعائیں اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں جب شدید بارش ہوتی ہے تو آج بھی بچے اکٹھے ہو کر گھر گھر جا کر کھانا جمع کرتے ہیں اور مل کر شینا زبان میں ایک منتر کا ورد کرتے ہیں
‘’Hin kadi ya sin kadi , hindu musalman kadi , ya khudaya bhejo bujot.
‘‘ہن کدی یا سن کدی ، ہندو مسلمان کدی، یا خدایا بھیجو بوجوت”۔
یہ اپنی نوعیت میں کوئی گانا نہیں ہے بلکہ ایک جادو کا منتر ہے جس کے کوئی لغوی معنی نہیں ہیں۔ یہاں پر اصل جادوئی الفاظ ‘ہنو بلیجو کو کدی "پرانے دیوتا کی جگہ خدا نے لے لی ہے”.
اسی طرح اگر افق پر قوس قزح دکھائی دے تو سمجھا جاتا ہے کہ آج ملیلی ماں بہت شاداں و فرحاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف وہی انسان قوس قزح کے پُل پر چل سکتے ہیں جن کی ذات انسانی بدبو اور عیبوں سے آلودہ نہ ہو۔
مقامی کونیات میں قوس قزح اس وقت بنتی ہے جب بارش کے موسم میں ملیلی آسمانوں میں محو پرواز ہوتی ہے اور قوس قزح کو پُل سمجھا جاتا ہے جو پست زمین کو دیوںوں کی آسمانی دنیا سے جوڑتا ہے۔
ملیلی ہی وہ محرک ہے جو نیند کے دوران ہمارے ذہن میں خوبصورت خواب دکھاتی ہے اور جس شخص کو ملیلی کے رنگ نہیں دکھائی نہیں دیتےاس کے خواب شیطانی روح یا جن بھوت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
جب بھی کوئی بچہ نیند کی حالت میں ہنستا ہے تو ماں کہتی ہے کہ ملیلی خواب میں شرارتی لومڑی بن کر بچے کے ساتھ کھیل رہی ہے۔
دیومالائی نفسیات میں مللیلی وہ مخلوق ہے جس کی تصویر بچہ دیکھتا ہے۔ ملیلی بچے کو خصوصی نشانی عطا کرتی ہے جو اس سے فیض حاصل کرتا ہے۔ یہ نشان بچے کے جسم پر تل یا دیگر خصوصی نشان کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ مقامی زبان میں اسے "ہایون” کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے تحفہ یا نشان۔
جس بچے کے پاس یہ نشان ہو تو اسے دیومالائی برکتوں سے نوازا گیا سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہ زندگی میں خوش قسمت تصور ہوتا ہے۔
ملیلی کا حسن بچے کی ابتدائی عمر میں جھلکتا نظر آتا ہے کیونکہ جب وہ اپنا نقش بچے میں منتقل کرتی ہے تو بچے کو معصوم روح عطا ہوتی ہے۔ ملیلی کا حسن و جمال اور برکت سے نوازا ہوا شخص جب ناپسندیدہ صفات اور عادات اپنا لیتا ہے تو مللیلی دیوی ناراض ہو جاتی ہے اور اس انسان کی خوبصورتی اس سے چھن جاتی ہے۔
جب کوئی حسین لڑکی ملیلی کی عطا کردہ خصوصیات کھو دیتی ہے تو وہ "ملیلی” نہیں رہتی ہے، بلکہ "نیلالی” بن جاتی ہے یعنی بدصورت اور بدتمیز لڑکی کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس لئے جب کوئی خوبصورت و خوبرو لڑکا یا لڑکی اپنی خوبصورتی کھونے لگتے ہیں تو شینا زبان میں”راچی بجوک” کہا جاتا ہے یعنی انہوں نے اپنی "پرکشش” روح کھو دی ہے۔
اس طرح شمنوں کے خواب و نغمے ظاہر کرتے ہیں کہ ملیلی خوشبو بطور غذا استعمال کرتی ہے اور ملیلیلی ہر ایسی چیز سے پاک ہے جس میں انسانی جسم کی بدبو ہو۔ اس کے مسکن کا راستہ رنگین پھولوں سے مزین ہے اور اس کی چال اتنی نازک اور جسم اتنا بے وزن ہوتا ہے کہ وہ پھولوں کی پتیاں کچلے اور روندے بنا ان پر چلتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملیلی مختلف ذرائع سے پاک روحوں سے بات کرتی ہے۔ وہ مقامی بانسری کی دھنوں کے ذریعے شمن سے بات کرتی ہے۔ جب ٹھنڈی ہوائیں جنگل کے پھولوں کو چھوتی ہیں تو مللیلی پریوں کی دنیا کے نغمے گنگناتی ہے۔
ملیلی کا دیدار اتنا مسحور کن ہوتا ہے کہ وہ ہمارے ہوش و حواس اڑا دیتا ہے۔ یہ وہی دیوی ہے جو چودھویں چاند کی روشنی کو دلکشی و حسن عطا کرتی ہے، اس لیے جب کوئی انسان چاند کے زیر اثر آجاتا ہے تو اسے ملیلی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عام طور پر شمن کسی بھی قسم کی دیوانگی اور دماغی امراض کا علاج کر سکتا ہے، ماسوائے اس کے جو ملیلی کے حسین نظارے سے چاند کے زیر اثر آ جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس انسان کی ساری ذات کو اپنے گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس لیے اس کا ذہن، روح، حواس، بصیرت و جذبات میلیلی کی دلکشی و خوبصورتی میں ہمہ وقت محو رہتے ہیں چنانچہ محبت کو ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا ہے” جس کا واحد علاج محبت میں اور ڈوب جانا ہے۔
بقول مشہور شاعر جگر مراد آبادی:
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے