موسمیاتی تبدیلی یا اللہ کا عذاب؟

علی احمد جان
“اللہ کا عذاب جنگل میں بھی آسکتا ہے۔ سوات اور کے پی میں جنگلات میں سیلاب آگیا۔”
یہ بات گلگت بلتستان کے وزیراعلی حاجی گلبر خان نے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔
“گلگت بلتستان میں گاؤں سطح پر اجتماعی صدقات اور استغفار کی ورد کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب سے راضی ہو۔”
مندرجہ بالا بیان فتح اللہ خان نے اپنے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری کیا ہے۔ موصوف قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کے ممبر ہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ سابقہ منسٹر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں۔
اتنے اہم عہدوں پر فائز یہ افراد موسمی تبدیلی پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے۔ وزیر اعلی گلبر خان موسمی تبدیلی کو اللہ کا عذاب قرار دیتے ہیں اور فتح اللہ کو یہ سیلاب، گلیشرز کا پگھلنا اور موسمیاتی تغیر کا سبب اللہ کا لوگوں سے روٹھنا ہے۔ سابق وزیر برائے پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے نزدیک موسمیاتی تغیرات سے بچنے کا “پلان” صدقہ دینا ہے۔
پاکستان اور اس کے زیرانتظام علاقوں میں اب تک کی جانے والی سرویز کے مطابق گلگت بلتستان کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں شرع خواندگی سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں اس خطے کے ہزاروں طلبا ء قومی اور بین الاقوامی جامعات سے پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرچکے ہیں باقی ایم فل اور ماسٹرز کرنے والوں کی تعداد چار گنا سے بھی ذیادہ ہوسکتی ہے لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ ان تمام افراد کے اورپر حاجی گلبر خان اور فتح اللہ صاحب جیسے لوگ مسلط ہیں جو کلائمٹ چینج کو مانتے ہی نہیں ہیں۔
ان صاحبان کے فرمودات کے آئینے سے دیکھا جائے تو جنگلات کی کٹائی سے خطے کے موسم پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور کرہ ء ارض کی درجہء حرارت میں اضافہ بھی خدا کی ناراضگی سے ہوتا ہے۔
آپ ذرا تصور کیجئے فتح اللہ صاحب کے دور میں “ترقی اور پلاننگ” کی وزارت میں ہونے والے فیصلے کتنے سائنسی بنیادوں پر ہوتے ہوں گے۔
حالیہ سیلابوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں تیس کے قریب لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، درجنوں زخمی ہیں، تین ہزار سے ذاہد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، سینکڑوں گھر، تعلیمی ادارے مکمل تباہ ہوچکے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تیار فصل کے ساتھ ملیامیٹ ہوچکی ہے اور ہزاروں پھل دار درخت سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب متاثرہ افراد خصوصا چھوٹے بچے ذہنی اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں ایسے غیر ذمہ دار اور نالائق حکمران کتنے بہتر فیصلے اور اقدامات کر سکتے ہیں اس کا اندازہ ان کے بیانات سے لگا سکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نوعیت کے آفات صرف پاکستان یا اس زیر انتظام علاقوں میں نہیں آتے، دنیا بھر کے مختلف خطے قدرتی آفات کا سامنا کرتے ہیں لیکن جن ممالک میں گورننس اچھی ہے وہاں عوام کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لوگ natural disasters سے نہیں بلکہ poor governance سے مر رہے ہیں. یہی صورت حال ان دنوں گلگت بلتستان کا ہے۔