کالمز

سرمایہ دار کی تجوری میں بہتا مزدور کا خون

سکردو کے اسسٹنٹ کمشنر احسان الحق نے نجی اداروں میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ یہ قدم بظاہر چھوٹا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں ایک ایسے نظام پر کاری ضرب ہے جس نے مزدور کے خون اور پسینے کو محض چند کاغذی نوٹوں کے عوض خرید رکھا ہے۔

گلگت بلتستان میں مزدور کی حالت کسی غلام سے کم نہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ ہوں یا میڈیا ہاؤسز کے رپورٹر، کورئیر سروسز کے ورکر ہوں یا موبائل کمپنیوں کے سیلز مین، پیٹرول پمپ کے ہیلپر ہوں یا پرائیوٹ کلینکس کے اسسٹنٹس، نجی سیکورٹی گارڈز ہوں یا گھریلو ملازم، سبھی کی کہانی ایک ہی ہے۔ آدھی اجرت، دوگنا کام اور سہولیات کا مکمل فقدان۔ نہ میڈیکل، نہ انشورنس، نہ پنشن اور نہ ہی ای او بی آئی کا کوئی تصور۔ یہ سب کچھ ایسے خطے میں ہو رہا ہے جہاں مزدور دن رات مشقت کرتا ہے مگر بدلے میں صرف ذلت اور محرومی پاتا ہے۔

پاکستان کے آئین میں مزدوروں کے حقوق واضح طور پر درج ہیں۔ آرٹیکل گیارہ جبری مشقت سے روکتا ہے، آرٹیکل پچیس مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل سینتیس مزدوروں کے تحفظ اور فلاح پر زور دیتا ہے۔ حکومت وقتاً فوقتاً کم سے کم اجرت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرتی ہے جس کے مطابق مزدور کو ایک مخصوص تنخواہ سے کم نہیں ملنی چاہیے۔ لیکن گلگت بلتستان میں یہ قوانین صرف کاغذی حیثیت رکھتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے لیے نوٹیفکیشن آتے ہی نافذ ہوجاتا ہے لیکن نجی ادارے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

یہ صرف قومی قوانین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ عالمی قوانین کی بھی کھلی پامالی ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا رکن ہے اور مزدوروں کے تحفظ اور کم سے کم اجرت سے متعلق کئی کنونشنز پر دستخط کرچکا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں بھی صاف لکھا ہے کہ ہر شخص کو منصفانہ اجرت کا حق حاصل ہے جو اسے اور اس کے خاندان کو باوقار زندگی فراہم کر سکے۔ مگر یہ سارے وعدے اور اصول یہاں طاقتور مافیاز کے سامنے دم توڑ دیتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں لیبر اینڈ کامرس کے نام سے پورا محکمہ موجود ہے مگر یہ محکمہ مزدور کا سہارا بننے کے بجائے نجی اداروں کے رحم و کرم پر خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ اس کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ محکمہ عوام کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی ڈھال ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں چیختی رہتی ہیں مگر حکومتی ایوانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی نجی ادارے میں کوئی ملازم اپنی تنخواہ میں اضافے یا بنیادی حقوق کی فراہمی کی بات کرے تو فوراً جواب ملتا ہے کہ "آپ کے بدلے باہر درجنوں امیدوار قطار میں کھڑے ہیں، اگر پسند نہیں تو دروازہ کھلا ہے۔” یہ ایک ایسا جملہ ہے جو مزدور کی کمر توڑ دیتا ہے اور اسے اپنی مجبوری کے ہاتھوں اسی معمولی اجرت پر کام جاری رکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یہ اجرت اتنی ناکافی ہوتی ہے کہ نہ گھر کا خرچ پورا ہوتا ہے، نہ بچوں کی فیس دی جا سکتی ہے اور نہ ہی علاج و معالجے کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے۔ نتیجتاً یہ طبقہ سخت مالی اور ذہنی اذیت سے دوچار ہے۔ ان کی پوری زندگی قرض، محرومی اور تنگدستی کے گرد گھومتی رہتی ہے۔

ہماری اجتماعی منافقت بھی اپنی جگہ المیہ ہے۔ سال بھر مزدور کا خون نچوڑتے ہیں اور یکم مئی کو بڑے بڑے بینرز اور تقریروں کے ساتھ مزدور کو سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ سلام نہیں بلکہ ایک کھلا مذاق ہے۔ مزدور کو خراج تحسین نہیں چاہیے بلکہ انصاف اور پسینے کی صحیح قیمت چاہیے۔

یہ کیسا نظام ہے کہ جس میں مزدور کی ہڈیوں کا گودا نچوڑ کر فیکٹریاں چلتی ہیں، جس کے پسینے سے دفاتر کی روشنیاں قائم رہتی ہیں اور جس کی نیندیں قربان ہو کر بازاروں کی رونقیں جنم لیتی ہیں، وہی مزدور دن کے اختتام پر خالی جیب اور شکستہ خوابوں کے ساتھ اپنے گھر لوٹتا ہے۔ سرمایہ دار کی تجوری ہر روز بھرتی ہے، مگر مزدور کی تھالی خالی رہتی ہے۔ یہ نظام ایسا ظالم ہے جس میں ایک طبقہ دولت کے انبار پر بیٹھا ہے اور دوسرا طبقہ نانِ جویں کے لیے بھی ترس رہا ہے۔

اب یہ معاملہ صرف سکردو تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ چیف سیکرٹری اور حکومت گلگت بلتستان کو چاہیے کہ پورے خطے میں نجی اداروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ہر سکول، ہر ہسپتال، ہر فیکٹری اور ہر دفتر کو کم سے کم اجرت اور بنیادی سہولیات دینے پر مجبور کیا جائے۔ جس سماج میں مزدور کا خون سرمایہ دار کی تجوری بھرنے کے لیے بہایا جائے وہاں ترقی کے خواب دیکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اب حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ مزدور کا پسینہ سستا رہے گا یا سرمایہ دار کی تجوری خالی ہوگی۔ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button