ہُن دن۔۔۔ بروشسکی زبان کی اولین فلم

گلگت بلتستان کے قدرتی چراگاہ میں ایک ماخور اور اس کا بچہ چر رہے تھے۔ پہاڑ کی اوٹ سے ایک شکاری نمودار ہوتا ہے۔ بچہ ماں سے کہتا ہے ” ماں ایک شکاری ہماری طرف آرہا ہے۔”
ماں کہتی ہے "نہیں میرے بچے وہ کوئی چرواہا ہے۔”
بچہ: ماں! اس کے ہاتھ میں بندوق بھی نظر آرہاہے۔
ماں: نہیں بچے، وہ چرواہے کی لاٹھی ہے۔
بچہ: ماں اس کی کمر میں بارود کی پوٹلی بھی بندھی ہوئی ہے۔
ماں: نہیں میرے لال، اس مین چرواہے کی روٹیاں ہیں جو وہ ساتھ رکھتا ہے۔
اتنے میں شکاری بندوق چلاتا ہے۔
بچہ: ماں بندوق کی آواز آرہی ہے۔
ماں: نہیں بچے، بادل کے گرجنے کی آواز ہے۔
اس دوران ماں کو گولی لگتی ہے اور منہ سے خون بہنے لگتا ہے۔ بچہ گھبرا کر ڈرتے ہوئے پوچھتا ہے۔ ” ماں تمہارے منہ سے خون بہہ رہا ہے۔”
ماں بچے کو دلاسہ دیتے ہوئے کہتی ہے ” نہیں بچے، جنگلی گھاس کے سرخ رنگ کے پھول کھانے سے منہ کا رنگ سرخ ہوگیا ہے۔”
اتنے میں بکری پر نقاہت طاری ہوتی ہے اور وہ گرجاتی ہے۔
بچہ: ماں مجھے دودھ پلاو۔
ماں: تم اب ہمیشہ کے لیے اس دودھ سے محروم ہوگئے ہو۔ جلدی سے دوسرے ماخور کے ساتھ یہاں سے بھاگ جاو۔
شکاری پہنچتا ہے اور ماں کو ذبح کرتا ہے اور بچہ۔۔۔۔
یہ لوک کہانی گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کے لیے نئی نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں ان پہاڑی علاقوں میں انٹرٹینمنٹ کا ایک اہم ذریعہ یہ لوک کہانیاں اور گیت ہوا کرتے تھے۔ اکثر دادا، دادی یا بزرگ سونے سے پہلے بچوں کو یہ کہانیاں سنایا کرتے تھے جو سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل ہوتی تھیں لیکن ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ ان پہاڑی علاقوں کے باسیوں کے پاس بھی ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ پہنچ گئے جس کے سبب یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ہنزہ سے تعلق رکھنے والے کرامت علی نے معدوم ہوتی ہوئی بروشسکی زبان میں پہلی فلم بنائی ہے جو کہ میرے خیال میں ایک نیا سنگ میل ہے۔ فلم کا نام "ہن دن” ہے جو ایک شکاری، شکاریات اور پہاڑی علاقوں کے لوگوں کا نیچر سے تعلق بیان کرتی ہے۔ کلائمیٹ چینج بھی اس فلم کا ذیلی موضوع ہے۔
بروشسکی کا شمار گلگت میں بولی جانے والی قدیم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ یہ زبان ہنزہ، یاسین اور نگر میں مختلف لب و لہجے سے ساتھ بولی جاتی ہے۔ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھی بروشسکی بولنے والے بستے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس زبان کے بولنے والوں کی کل تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے کچھ محققین اس تعداد کو ایک لاکھ بتاتے ہیں۔ بروشسکی کا شمار دنیامیں تیزی سے معدوم ہوتی زبانون میں ہوتا ہے۔ اسے منفرد اور تنہا زبان اس لیے کہتے ہیں کہ اس خطے میں بولی جانے والی دیگر زبانوں اور زبانوں کے خاندان سے اس کا تعلق نہیں نکلتا ہے۔
فلم "ہن دن” کے لکھاری اور ہدایت کار کرامت علی کی مادری زبان بروشسکی ہے اور ایسی زبان میں فلم بنانا نہایت مشکل اور منفرد کام ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے کسی بھی مقامی زبان میں بننے والی یہ اولین فلم ہے جو پاکستان بھر میں اور پاکستان کے باہر بھی سنیما گھروں میں دکھائی جائے گی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سنیما گھروں کی معیار کی فلم بنانے کے لیے وقت، وسائل، محنت اور ساتھ ہی تجربہ بھی درکار ہوتا ہے۔ اس فلم کی پریمیر چند ماہ پہلے اسلام آباد اور کراچی میں ہوئی تھی اب اسے اردو زبان کی ڈبنگ کے ساتھ اسی ہفتے سینیما گھروں میں ریلیز کی جارہی ہے۔
اس فلم میں کام کرنے والے اداکار پروفیشنل ایکٹرز نہیں ہیں لیکن ان سے شاندار کام لیا گیا ہے، ایک لمحے کے لیے بھی ایسا نہیں لگتا ہے کہ ان افراد کی یہ پہلی فلم ہے۔ لوکیشن کا انتخاب اور مکالمے بھی قابل تعریف ہیں۔ مذکورہ فلم میں لباس، درست زبان کا استعمال اور ثقافت کو خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔ پاکستان بھر کے سینیما گھروں میں اردو زبان میں یہ فلم لگ رہی ہے۔ اگر آپ بچپن کی یادوں کو ایک بار پھر زندہ کرنا چاہتے ہیں اور کرامت کی کاوش کو سراہنا چاہتے ہیں تو سنیما جاکر بڑے پردے پر یہ فلم ضرور دیکھیں۔