کالمز

سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت

رواں سال گلگت بلتستان کے لیے قدرتی آفات کے واقعات انتہائی کٹھن ثابت ہوئے۔ سال کے آغاز میں غیر متوقع برفباری نے برفانی تودوں کو جنم دیا اور بالائی علاقوں کی آبادی ہفتوں مشکلات کا شکار رہی۔ ابھی لوگ اس صدمے سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ گرمی کے آغاز پر ندی نالوں میں طغیانی، گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے اور تیزی سے پگھلتے گلیشیرزنے پورے خطے کو ایک بار پھر تباہی کی لپیٹ میں لے لیا۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق صرف جون سے ستمبر 2025 کے دوران گلگت بلتستان میں مختلف حادثات اور آفات میں 41 افراد جان سے گئے، 52 زخمی ہوئے، 779 گھر مکمل طور پر تباہ جبکہ 481 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ 87 پل اور 20 کلومیٹر سڑکیں بھی زمین بوس ہوئیں۔ مجموعی طور پر تین ہزار سے زائد افراد براہِ راست متاثر ہوئے جن کے لیے صرف گیارہ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے۔

حکومتی تخمینوں کے مطابق رواں سال قدرتی آفات کے باعث نقصانات کی مالیت 35 ارب روپے سے زائد ہے، مگر وفاق کی جانب سے محض چار ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ یہ رقم حقیقتاً کتنی متاثرین تک پہنچی، اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ متاثرین کو دیا جانے والا معاوضہ موجودہ صورتحال کے مقابلے میں محض "اونٹ کے منہ میں زیرہ” کے مترادف ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی اور موسمیاتی ساخت کے باعث ہمیشہ آفات کی زد میں رہا ہے۔ سردیوں میں برفانی تودے اور برفباری کی مشکلات، گرمیوں میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے اور ندی نالوں میں طغیانی، اور اب "کلاؤڈ برسٹ” جیسے نئے خطرات عوام کے لیے مستقل امتحان بن چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات نے اس خطے کو دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لا کھڑا کیا ہے۔

ماہرین اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے "ڈیزاسٹر مینجمنٹ سائیکل” کی وضاحت کرتے ہیں، جو چار مراحل پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے تدارک کا مرحلہ ہے جس کا مقصد آفات کے اثرات کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہے، جیسے دریاؤں کے کناروں پر حفاظتی بند باندھنا، غیر محفوظ تعمیرات پر پابندی لگانا اور زمین کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے شجرکاری کرنا۔ دوسرا مرحلہ تیاری کا ہے جس میں عوام اور اداروں کو آفات کے مقابلے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس دوران پیشگی اطلاعی نظام نصب کیے جاتے ہیں، ہنگامی منصوبے بنائے جاتے ہیں اور دیہی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ تیسرا مرحلہ ردعمل کا ہے، یعنی آفات کے دوران فوری کارروائی تاکہ نقصان کم سے کم ہو، جیسے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا، خوراک اور علاج کی سہولت فراہم کرنا اور عارضی طور پر راستوں اور پلوں کی بحالی۔ آخری اور سب سے مشکل مرحلہ بحالی کا ہے جس میں متاثرہ آبادی کو دوبارہ زندگی کی طرف لوٹانا شامل ہے، مثلاً عارضی شیلٹرز، مستقل مکانات کی تعمیر، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور معیشت کو بحال کرنا۔

بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں یہ سائیکل کبھی مؤثر طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ حکومتی ادارے زیادہ تر آفات کے بعد صرف ابتدائی امدادی سامان تک محدود رہتے ہیں۔ جب کہ اصل مشکلات تب شروع ہوتی ہیں جب متاثرین اپنے اجڑے گھروں میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ریلیف کیمپ چند دنوں کے بعد ختم ہو جاتے ہیں، عارضی شیلٹرز ناکافی ثابت ہوتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی فراہمی رُک جاتی ہے، اور تباہ شدہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لیے کوئی خاطرخواہ اقدامات نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ آبادی مہینوں بلکہ سالوں تک بنیادی سہولیات سے محروم رہتی ہے۔

اشکومن کے دائین ویلی میں تباہ شدہ پل ہو یا تلی داس میں جھیل کے پانی میں ڈوبی شاہراہِ غذر، متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گوپس، پھنڈر اور یاسین کے عوام آئے دن احتجاج کرتے ہیں کہ پرانے راستے بحال کیے جائیں، مگر حکومتی مشینری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا 2010 کے سیلاب اور سانحہ عطا آباد کے متاثرین کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔سر چھپانے کے لیے محفوظ مکانات کی کمی، روزگار کے مواقع نہ ہونا، اجڑی زمینیں، تباہ شدہ سڑکیں اور پل، تعلیمی اداروں کا نقصان اور علاج کی سہولتوں کا فقدان۔ ان سب کے باوجود وفاقی و صوبائی حکومتیں صرف وقتی بیانات اور کاغذی منصوبوں تک محدود ہیں۔

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت امدادی اداروں کے ساتھ مل کر سردیوں کی آمد سے قبل ایک جامع اور عملی منصوبے کے تحت متاثرہ علاقوں میں بحالی کے اقدامات کرے۔ بصورت دیگر  حکومتی مدت ختم ہونے پریہ مسائل مزید گھمبیر ہوں گے اور قدرتی آفات کے شکار عوام ایک بار پھر تنہائی اور بےبسی کے اندھیروں میں دھکیل دیے جائیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button