کالمز

قاضی نثار احمد اور ظرافت

آج قاضی صاحب کی عیادت کے لیے گلگت ان کے گھر جانا ہوا، میری ڈیوٹی چلاس کالج میں ہونے کی وجہ سے بروقت عیادت کے لیے نہ جاسکا تھا۔ میرے ساتھ میرا بیٹا عمر علی حقانی بھی تھا۔ عمر نے رات ہی سے ضد کر رکھی تھی کہ صبح قاضی صاحب سے ملنے میں بھی ضرور چلوں گا۔ اس لیے آج اس نے سکول سے بھی چھٹی لے رکھی تھی۔ صبح ہم دونوں پہنچے تو وہاں مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہم آدھا گھنٹہ وہاں رکے رہے، اسی اثناء مختلف علاقوں سے آنے والے وفود ایک کے بعد ایک داخل ہو رہے تھے، ہنزہ، گوجال، یاسین، استور، گوپس، چلاس، تانگیر کے کئی وفود اور فرداً فرداً آنے والے، قاضی صاحب کی خیریت دریافت کرنے کے لیے جمع تھے۔
اسی دوران قاضی صاحب حسبِ معمول نہایت بشاشت، انکساری اور محبت کے ساتھ سب کا استقبال فرما رہے تھے۔
قاضی صاحب نے کہا: "ان پانچ دنوں میں  لاکھوں لوگ ہسپتال میں  عیادت کے لیے آئے ہیں، اللہ سب کو جزائے خیر دے۔”
ہم جیسے ہی ان کے سامنے پہنچے، وہ محبت سے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوگئے، عمر علی حقانی کو گلے سے لگایا، پیار کیا اور ہنستے ہوئے فرمایا:
"ارے یہ تو وہ عمر ہے جس نے اپنے والد کی دوسری شادی پر مٹھائیاں بانٹی تھیں، ایسے زندہ دل اور وفادار بیٹے آج کل کہاں ملتے ہیں!”
پھر مسکرا کر کہا: "یہ تو ہمارے پاس نصرۃ الاسلام میں پیدا ہوا تھا، اپنے ہی بچے کی طرح ہے۔” 
قاضی صاحب نے عمر علی کو اپنے  ساتھ ہی بٹھایا اور اپنے ہاتھوں سے سیب، انگور اور کیلے کھلائے۔ ان کی محبت، شفقت اور ظرافت کے یہ انداز دیکھ کر دل بھر آیا۔ ان کے گرد بیٹھے لوگ بھی قہقہوں میں شریک تھے، اور فضا میں ایک عجیب سی روحانی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔
قاضی صاحب کے سر پر جو دیسی ٹوپی سجی ہوئی ہے، یہ ٹوپی ہنزہ کے ایک معمر بزرگ اپنے ہاتھوں سے لا کر قاضی صاحب کے سر پر محبت سے رکھ گئے، ہم ان کا جذبہ محبت دیکھ کر ورطہ حیرت میں رہ گئے۔ وہ  بتا رہے تھے کہ وہ  قاضی عبدالرزاق مرحوم کے زمانے کے پرانے ساتھی ہیں، عمر ان کی تقریباً پچاسی برس ہے ،شاید وہی معروف علی یار ہوٹل کے مالک تھے وہ دیر تک بیٹھے رہے۔ 
انہوں نے قاضی عبدالرزاق صاحب کے ساتھ گزرے دنوں کی کئی یادیں بھی تازہ کیں۔ جب انہوں نے وہ ٹوپی قاضی نثار کے سر پر رکھی تو قاضی صاحب نے مسکراتے ہوئے نہ صرف اسے فوراً پہن لیا بلکہ دیر تک محبت سے سر پر سجائے رکھا۔ اس لمحے میں ایک خوبصورت منظر چھپا تھا، ماضی کی رفاقت، حال کی عقیدت، اور آنے والے کل کے لیے امید کا استعارہ۔ قاضی صاحب نے کہا کہ ان بزرگوں کو میری گاڑی میں گھر پہنچائیں لیکن انہوں نے منع کیا اور خود چلے گے۔
 مجلس میں وفود کے ساتھ  گفتگو کے دوران قاضی نثار احمد کا چہرہ ایمان، حوصلے اور طمانیت کا آئینہ لگ رہا تھا۔ وہ حملے کی تفصیلات سنا رہے تھے لیکن لہجے میں کوئی خوف یا غصہ نہیں، بلکہ اطمینان اور شکرگزاری نمایاں تھی۔ فرما رہے تھے:
"یہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ اتنے سخت حملے کے باوجود میں سلامت رہا۔” 
انہوں نے بڑے وقار سے کہا:
"ہمیں مختلف مکاتبِ فکر سے اصولی اختلاف ضرور ہیں، مگر ہم سب ایک دوسرے کے اچھے ہمسایے ہیں۔ اب کی بار جو محبتیں اور تعاون مجھے اہل سنت ،اہلِ تشیع، اسماعیلی اور دیگر برادریوں سے ملا، وہ ناقابلِ بیان اور ناقابل فراموش ہے۔ نگر اور بلتستان میں اہلِ تشیع نوجوانوں نے میرے حق میں مظاہرے کیے، اور جس لمحے حملہ ہوا، ایک اہلِ تشیع نوجوان نے خود آ کر مجھے ریسکیو کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل تشیع کی اکثریت امن چاہتی ہے، فساد صرف چند مخصوص جتھے کرتے ہیں۔”
قاضی نثار احمد کی باتوں میں وزن بھی تھا اور دردِ دل بھی۔ ان کی گفتگو نے وہاں بیٹھے ہر شخص کے دل کو چھو لیا۔ ہر آنے والا یہی کہہ رہا تھا کہ قاضی صاحب نے اس بار پورے گلگت بلتستان کا دل جیت لیا ہے۔ مختلف مکاتبِ فکر کے لوگ فوج در فوج عیادت کے لیے آرہے ہیں، ہر جگہ دہشت گردانہ حملے کے خلاف احتجاج اور مذمت ہو رہی ہے۔
قاضی نثار احمد کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ظریفانہ طبیعت سے نوازا ہے۔ وہ اپنی باتوں سے سنجیدہ سے سنجیدہ محفل کو بھی زرد زعفران بنا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے نازک اور تکلیف دہ حالات میں بھی وہ آنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کر رہے تھے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ دل گردے کا کام ہے، ورنہ اس نوعیت کے حادثات کے بعد اکثر لوگ رونا دھونا کرتے ہیں اور غم کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
قاضی نثار احمد آج بھی اس خطے کے لیے اتحاد، محبت اور رواداری کی علامت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے اپنے دائرے میں قاضی نثار احمد جیسا کردار ادا کریں، تاکہ یہ سرزمین نفرتوں سے نہیں بلکہ تعمیر، ترقی اور بھائی چارے سے جگمگا اٹھے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button