کالمز

امن کے نام: گلگت بلتستان – نوبل امن انعام کے معیارات کی زندہ مثال

جب حال ہی میں نوبل امن انعام کا اعلان ہوا، تو دنیا نے اس انعام کے بنیادی معیارات پر غور کرنا شروع کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان انہی معیارات کی زندہ تفسیر پیش کرتا ہے۔

نوبل امن انعام بنیادی طور پر ان شرائط پر دیا جاتا ہے:

· قوموں کے درمیان بھائی چارے کو فروغ دینا
· مستقل امن کانگریسوں کا انعقاد
· تنازعات کے پرامن حل کو یقینی بنانا

گلگت بلتستان میں یہ تمام خوبیاں قدرتی طور پر موجود ہیں۔ یہ خطہ ہمیں سکھاتا ہے کہ امن صرف بین الاقوامی معاہدوں کا نام نہیں، بلکہ روزمرہ کی زندگی میں باہمی احترام اور رواداری کا عملی اظہار ہے۔

گلگت بلتستان ‘باہمی- بقائے باہمی’ کی اس سیڑھی پر چلتا ہوا امن کی مثالی تصویر پیش کرتا ہے:

پہلی سیڑھی: مشترکہ وسائل کی حفاظت
ہمارے پانی کے ذخائر،قیمتی پتھر، دریا اور زمینیں کسی ایک فرقے کی ملکیت نہیں بلکہ سب کی مشترکہ وراثت ہیں۔ یہ وسائل ہمیں باہم جوڑتے ہیں اور ہماری اجتماعی خوشحالی کی ضمانت ہیں۔

دوسری سیڑھی: مشترکہ ثقافتی روایات
ہم جنم سے لے کر موت تک کے تمام تہوار ایک ساتھ مناتے ہیں۔ایک ہی روایتی ڈھول کی تھاپ پر سب کے قدم ناچتے ہیں۔ سال کی پہلی کھیتی کا تہوار ہم سب یکساں جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ خطے کی کامیابی اور ناکامی پر ہم سب کے جذبات یکساں ہوتے ہیں۔ جیسے ہنزہ والوں کی پسندیدہ ہریپ چلاسی یا بلتی ہے، اور پولو کے کھیل سے ہم دریا کے سنگم کی طرح ملا دیتا ہے۔

تیسری سیڑھی: بزرگوں کی دانش اور انصاف
ہم عدالتوں اور جیلوں کے بجائے اپنے بزرگوں کے جِرگہ نظام پر بھروسہ کرتے ہیں۔ہمیں گھر بیٹھے انصاف مل جاتا ہے جہاں تاریخ ہمارا قانون ہے۔ حال ہی میں سیلاب کے بعد ہر فرقے کے لوگ مل کر پانی کے ذرائع بحال کرنے میں مصروف تھے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے بزرگ کرتے تھے۔ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ یہاں کوئی باہر کے دشمن ہیں۔

گلگت بلتستان کی برادری نوبل امن انعام کے معیارات کی عملی تفسیر ہے۔ یہاں کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ حقیقی امن کا راستہ باہمی احترام، رواداری اور مشترکہ انسانی قدروں سے ہو کر گزرتا ہے۔

نوبل امن انعام کا حقیقی پیغام اس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم گلگت بلتستان جیسے خطوں سے سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ یہاں کے عوام نے اپنی اجتماعی کوششوں سے ثابت کیا ہے کہ پرامن بقائے باہمی کا خواب حقیقت میں بدلنا ممکن ہے۔
ا ج قاضی صاحب، اور آغا صاحب کے بیان اور انکی نصیحت سن کے لگا جیسے تاریخ لکھی جارھی ہو، اور گواہی دیتا ہے کے ہمارا لیڈر امن کے سردار ہیں،

آئیے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم اپنے معاشروں میں ‘باہمی – بقائے باہمی’ کی اس سیڑھی کی تعمیر کریں گے۔ ہم اپنے بچوں کو رواداری کا سبق سکھائیں گے، دوسروں کے عقائد کا احترام کریں گے اور ایک ایسی دنیا بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے جہاں نوبل امن انعام کے خواب کو حقیقت میں دیکھا جا سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button