عظیم ایرانی شاعر حافظ شیرازی کا عالمی مقام

خواجہ شمس الدین محمد بن بہاء الدین محمد حافظ شیرازی، جو لسان الغیب، ترجمان الاسرار، لسان العرفا اور ناظم الاولیاء کے ناموں سے مشہور ہیں، آٹھویں صدی ہجری (چودہویں صدی عیسوی) کے عظیم ایرانی شاعر اور دنیا کے معروف ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ حافظ کا دیوانِ شعر تقریباً 500 غزلوں، دو مثنویوں، چند قصیدوں، قطعات اور کچھ رباعیوں پر مشتمل ہے، اور اب تک یہ دیوان 400 سے زائد مرتبہ مختلف انداز میں فارسی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ حافظ کا دیوان 36 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے تاکہ اس کے گہرے فکری پیغامات کو دنیا بھر میں پہنچایا جا سکے۔ اگرچہ حافظ نے مولانا کی عارفانہ غزل اور سعدی کی عاشقانہ غزل کو آپس میں جوڑ دیا ہے، لیکن اس کی اصل جدت و انفرادیت اس کے درخشاں، خودمختار اور پُرمعنی اشعار (تک بیتوں) میں ہے۔ حافظ کی سخن سازی میں خواجوی کرمانی کے اندازِ بیان کی جھلک اور ان دونوں کے طرزِ سخن میں مماثلت مشہور ہے۔ وہ بعد کے شاعروں پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، اور اٹھارویں و انیسویں صدی میں ان کے اشعار کا ترجمہ یورپی زبانوں میں کیا گیا، جس کے ذریعے ان کا نام مغربی دنیا کے ادبی حلقوں تک پہنچا۔ حافظ کی شاعری ایران تک محدود نہ رہی بلکہ مختصر عرصے میں سرحدوں سے نکل کر دیگر ملکوں میں بھی مقبول ہو گئی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ان کے اشعار کا یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اور اس طرح ان کا نام عالمی ادبی محفلوں میں شامل ہو گیا۔
حافظ کی رِندی اور اس کی شاعری کی گوناگوں جہتیں ایسی خصوصیات ہیں جنہوں نے ہر دور میں عوام، علما اور اہلِ فکر و دانش کو اس سے گہرا تعلق قائم کرنے پر آمادہ کیا۔ مغرب کے بڑے مفکرین، جیسے جرمن شاعر گوئٹے اور فلاسفر نیٹشے، سمیت دیگر شعرا نے حافظ کو اپنا آئیڈیل مانا اور خود کو اس کا مرید تصور کیا۔
فارسی زبان و ادب کے فروغ کے لیے دنیا میں کوئی خطّہ برصغیر (ہندوستان) سے زیادہ وسیع اور زرخیز نہیں رہا۔ اس خطے میں فارسی زبان و ادب سے متعلق اہم ترین واقعات میں ایک بڑی پیش رفت یہ تھی کہ قدیم فارسی متون کی اشاعت سب سے پہلے یہیں عمل میں آئی۔ ایرانی کلاسیکی ادب کے بہت سے عظیم شاہکار، جیسے شاهنامه اور دیوانِ حافظ، سب سے پہلے ہندوستان میں شائع ہوئے، اور اس کے بعد ایران میں ان کی اشاعت ممکن ہوئی۔ ان عظیم فارسی متون پر متعدد شرحیں اور تفسیریں بھی اسی خطے میں لکھی گئیں۔ حافظ نے جب فارسی کا "قندِ سخن” بھیجا، تو برصغیر کے باشندے شکر شکن ہو گئے (یعنی سب اس کے شیرین کلامی کے گرویدہ ہو گئے)۔ ہندوستان کے بادشاہ اس کے دیوان سے فال نکالا کرتے تھے، اور فارسی و اردو کے شعرا بھی اس سے گہرا اثر لیتے رہے۔ بعض اوقات حافظ کی شاعری ہندوستانی مقامی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بھی بنی۔ مثال کے طور پر یہ مشہور شعر، جو ہندوستان میں حافظ سے منسوب ہو کر بہت مقبول ہوا، ملک میں پائی جانے والی بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کی روح کو بیان کرتا ہے:
حافظا گر وصل خواهی صلح کن با خاص و عام
با مسلمان الله الله، با برہمن رام رام
ترجمہ: اے حافظ! اگر وصل چاہتے ہو تو خواص و عوام سب سے صلح رکھو، مسلمانوں سے ’’اللہ اللہ‘‘ کہو، اور برہمن سے’’رام رام‘‘۔
حافظ شیرازی کی بے مثال مقبولیت اور شعری اثر و رسوخ کے پیش نظر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ حافظ کے دیوان کا قدیم ترین نسخہ ہندوستان کے شہر گورکھپور سے دریافت ہوا۔ ادب کے عظیم شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے والد، دیبیندرناتھ ٹیگور، حافظ کے دیوان کے حافظ تھے، اور خود رابندرناتھ کی شاعری میں حافظ کا گہرا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ رابندرناتھ ٹیگور نے فارسی ادب کے دو عظیم شعراء حافظ اور سعدی کی سرزمین کا سفر کیا اور ان بزرگوں سے اپنی عقیدت و محبت کا بھرپور اظہار بھی کیا۔




