کالمز

بنا تربیت تعلیم کے شاخسانے 

تعلیم کے ساتھ تربیت کا لفظ عموما استعمال ہوتا آیا ہے ،یعنی تعلیم وتربیت۔ نئی نسل کو دنیاوی وروحانی ترقی کے لئے جتنی تعلیم کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ تربیت ان کی ذہنی وجسمانی ترقی کے لئے ناگزیر ہے ۔ اگر یہ دونوں مظاہر یعنی تعلیم اور تربیت ساتھ ساتھ چلے تو ایک صحت مند اور توانا مہذب معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے ۔ اگر ان دونوں عوامل میں سے کسی ایک کو زیادہ اہمیت اور دوسرے کو نظر انداز کیا جائے تو ایک بیمار معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی ایک بیمار معاشرہ ہے یہاں جو لوگ جسمانی طورپر ترقی یافتہ ہے ان کے ہاں ذہنی نمو کا فقدان ہے اور جو ذہنی طورپر قدرے نشونما پاجائے انہیں اس معاشرے میں جسمانی نشونما کا موقع نہیں ملتا ۔ہم اسے غیر متوازن یا نیم مردہ معاشرہ کہہ سکتے ہیں ۔ ایک عمومی رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں سارے مسائل کا جڑتعلیم کی کمی ہے ۔ گوکہ جزوی طورپر یہ بات سچ بھی ہوسکتی ہے لیکن اس بیان کو کلی طورپر درست تسلیم کرنا ممکن نہیں۔کیونکہ معاشرے کی بگاڑ اور جرائم پیشہ افراد میں سے اکثریت پڑھےلکھے لوگوں کی ہیں۔ کرپشن اور اقراباپروری بھی پڑھے لکھے لوگوں کا وطیرہ ہیں ۔آج خدا کے فضل وکرم سے چترال کے نوجوان نسل میں اسی فیصد سے زائد تعلیم یافتہ آبادی پر مشتمل ہے ، لیکن سب سے زیادہ جرائم پیشہ افراد کا تعلق بھی اسی نسل سے ہیں ۔ اور یہی تعلیم یافتہ یا پڑھے لکھے حضرات کی جانب سے ہی جرائم اور لاقانونیت کی نت نئی برانڈ ایجاد ہورہی ہے ۔ان جرائم کی ایک بنیادی وجہ تو تربیت کا فقدان ہے ، بچے جونہی شیر خوارگی کی عمر کو کراس کرتے ہیں والدین ان کے ہاتھوں میں اسکرین ٹچ موبائل تھما کر دنیا مافیاسے بے خبر ہوجاتے ہیں ، جدید دور کے والدین کا فلسفہ تربیت یہ ہے کہ ان کی اولاد کے ہاتھوں میں آڑوس پڑوس میں رہنے والے دیگر لوگوں کی بچوں سے زیادہ بہتر برانڈ کا موبائل موجود ہو۔ اور اسے ہی تربیت کا معراج تصور کیا جاتا ہے جونہی بچہ پانچوین کلاس پاس کرتے ہیں تو یہی عظیم والدین موٹر سائیکل خرید کر اس بچے کے حوالے کرتے ہیں۔ لاڈپیار اور ناز نخرے سے پرورش پانے والے بچے کے حوالے سے پڑوسی کی جانب سے کسی قسم کی شکایت آئے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے ایکدم یہی ردعمل سامنے آتا ہے کہ سارے گاؤں والے میرے بچے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں میرادل کہتا ہے کہ میرا بچہ ایسا ہر گز نہیں کرسکتا اور یوں اس بچے کی تربیت شروع ہی سے غلط اور گمراہ کن اندا ز سے ہونی شروع ہوجاتی ہے ۔ جب کسی غلط سرگرمی کے بعد والدین کی جانب سے لاپرواہی برتی جاتی ہے یا سرے سے والدین اس غلطی کو ماننے ہی سے منکر ہوجاتے ہیں تو اس بچے کو مزید تخریب کاری اور جرائم کے لئے حوصلہ ملتا ہے ، اور یوں ایک کے بعد ایک جرم کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ جب یہی بچہ پل بڑھ کر جوان ہوتا ہے تو چاہے کتنا اچھا پڑھا لکھا کیوں نہ ہو بچپن کی تربیت کا اثر نہیں اترتا اور یوں بڑے سے بڑے جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ دیکھاجائے تو تربیت کے اس فقدان کا سارا معاشرہ شکار ہے ۔ والدین بچوں کو پندرہ ہزار روپے کا موبائل تو تھما دیتے ہیں لیکن ان کو دو سو روپے کی کتاب خرید کر دینا گوارا نہیں کرتے ۔یہی نوجوان ون ویل موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔یہی گاڑیوں کی غلط پارکنگ اور ٹریفک سگنل توڑ رہے ہوتے ہیں۔ انتہائی باصلاحیت اور رومانوی مزا ج کانوجوان تنویر گلزار ہمارے یونیورسٹی کا کلاس فیلو تھا۔ یونیورسٹی سے فارع ہونے کے کچھ عرصے بعد سوشل میڈیا کے تھرو پتہ چلا کہ تنویر کسی حادثے کا شکار ہوکر جان بحق ہوگئے ہیں۔ دوست کی یوں بے وقت موت پر دلی صدمہ بہت ہواپھر کسی اور کلاس فیلو سے پوچھا کہ تنویر کے موت کی وجہ کیا تھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ سڑک پر ون ویل بائیکل چلارہے تھے اسی اثنا میں حادثے کا شکار ہوکر جان بحق ہوگئے۔ کیا قانون پسند ہونے کے لئے ایم اے شعبہ سیاسیات سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے ؟

چترال کی سطح پر دیکھا جائے تو سال روان میں صرف موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے دسیوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اسی طرح دسیوں افراد خود انتہائی تیز رفتاری کے باعث لقمہ اجل یا پھر زندگی بھر کے لئے اپاہچ ہوچکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گھریلو تربیت کا ہے جبکہ دوسری وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مایوس کن کارکردگی ہے ، جس کی بنا پر آئے روز حادثات ہمارا مقدر بن چکے ہیں ۔ ایک برس کا واقعہ یاد آیا مستوج اور بونی کے چند منچلوں کو ایکدوسرے سے دست وگریبان ہونے کا شوق دامن گیر ہوا یوں موبائل فون نکال کر ایکدوسرے کو دھمکی دی اور اسی اثنا میں دونوں گروہوں نے سنوغر کے مقام پر مقابلے کا فیصلہ کیا وقت مقررہ پر دونوں جانب کے مافیاز گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں سوار ہوکر سنوغر کے مقام پر پہنچے اور ایکدوسرے پر چاقووں اور دوسرے مہلک ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں کئی افراد جان بحق ہوتے ہوتے بچ گئے ۔چند روز وہ دہشت گرد ذہنیت کے افراد جیل میں رہنے کے بعد بالآخر دونوں فریقوں نے صلح کی اورووہ کیس ہی ختم کردیا گیا ،وہ سب یا تو ڈگری لیول کے پڑھے لکھے تھے یا پھر کالجز میں پڑھ رہے ہیں ۔اس قسم کا منظر ماسوائے فلموں کے شاید بہت کم لوگوں نے حقیقی دنیا میں دیکھا ہوگا۔

یہ عمل صرف لڑکوں کی حد تک نہیں بلکہ لڑکیاں بھی معاشرتی اقدار کو پاؤں تلے روند کر مادر پدر آزادی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ موبائل فون کے غلط استعمال اور اس سے پھیلنے والے مسائل کو سمجھنا ہو تو حال ہی میں بونی سے متصل آوی کے مقام پر لڑکی کی خود کشی کا واقعہ اس سلسلے کی ایک نظیر ہے ۔ غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی دسوین کلاس کی اس طالبہ کے پاس موبائل فون کہاں سے آئی تھی، ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اور اس موبائل فون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس لڑکی کی جان چلی گئی اور چار نوجوانوں کو موردالزام ٹہرا کر پولیس تفتیش کررہی ہے ۔اس طرح کی دسیوں واقعات روزمرہ کا معمول ہے ۔ جو پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے سامنے آرہی ہے ۔ اگر ہم معاشرہ میں جنم لینے والی ان مسائل کا ادراک کرکے ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی تو بہت جلد ہمارا معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن سکتی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button