کالمز
دیامر: سوال سے خوف اور شعور کی آزمائش

مجھے نہیں معلوم کہ شعور پر جبر کی یہ داستانیں کب اختتام کو پہنچیں گی—وہ داستانیں جہاں سوال کرنا جرم، اختلاف گستاخی اور دلیل دینا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ فضا ہے جہاں سوچنے والے ذہن خاموش رہنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، اور جہاں سچ بولنے والا فرد اکثر تنہا کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے معاشرے وقتی طور پر پرسکون تو دکھائی دیتے ہیں، مگر اندر ہی اندر کھوکھلے ہو چکے ہوتے ہیں۔
دیامر کی سرزمین بلاشبہ ثقافتی اور سماجی حوالوں سے ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔ مہمان نوازی، وفاداری، قبائلی وابستگی اور قول و قرار کی پاسداری یہاں کے سماجی شعور کا حصہ رہی ہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جن پر دیامر فخر کر سکتا ہے، اور جن کی مثالیں دوسرے علاقوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا روایات پر فخر کرنا ہی کافی ہے، یا وقت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم ان روایات کا تنقیدی جائزہ لیں؟
تاریخی اعتبار سے دیامر محض ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ تہذیب کا ایک روشن باب رہا ہے۔ داریل کی ہزاروں برس قدیم تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ جب دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، تب اس سرزمین میں علم کے چراغ روشن تھے۔ پھوگچ یونیورسٹی کے کھنڈرات آج بھی ماضی کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ خاموش پتھر بھی سوال کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے علمی ورثے کے ساتھ کیا سلوک کیا، اور کیوں ہم نے روشنی کے ان میناروں کو فراموشی کے اندھیروں کے حوالے کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک طویل عرصے تک اس خطے سے دنیا نے علم، ہنر، تمدن اور تہذیب میں استفادہ کیا۔ یہاں سے فکر، فن اور فہم کے ایسے چراغ روشن ہوئے جن کی لو دور دور تک پھیلی۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج وہی سرزمین آہستہ آہستہ انہی نعمتوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ علم کے دروازے بند ہوں تو معاشرہ روایت کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، اور روایت جب سوال سے خالی ہو جائے تو جمود میں بدل جاتی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کے وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں سوال کو شعور کی پہلی سیڑھی اور دلیل کو مکالمے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے اور اختلافِ رائے کو دشمنی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس، جن معاشروں میں سوال ممنوع اور دلیل مشکوک ہو، وہاں علم دم توڑ دیتا ہے اور انتہاپسندی ایک ایسے عفریت کی صورت جنم لیتی ہے جو معاشرے کی اخلاقی اور فکری بنیادوں کو نگل لیتا ہے۔
بدقسمتی سے دیامر بھی آج انہی سماجی اور فکری امراض کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں کا نوجوان سوال کرنا چاہتا ہے مگر ڈرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ سوال اس کے لیے راستے نہیں بلکہ مسائل پیدا کرے گا۔ رسوم و رواج کے بندھن اس قدر سخت ہو چکے ہیں کہ بعض اوقات اسلامی تعلیمات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے ہمیشہ علم، سوال اور تدبر کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
غیرت کے نام پر قتل، قوم پرستی، ذات پات کی تفریق اور قبائلی تعصبات نے اس معاشرے کی بنیادی اچھائیوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہ وہ زخم ہیں جو صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو زخمی کرتے ہیں۔ انسانی جان کی حرمت پامال ہو تو نہ روایت باقی رہتی ہے، نہ تہذیب، اور نہ ہی دین کا اصل پیغام۔
اگر دیامر کے مستقبل کو محفوظ، روشن اور باوقار بنانا ہے تو محض ماضی پر فخر کافی نہیں ہوگا۔ ان قبائلی رسوم و رواج پر سنجیدگی سے نظرِ ثانی کرنا ہوگی جو نہ اسلامی احکامات سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی عصرِ حاضر کے اخلاقی تقاضوں سے۔ روایت کا احترام اپنی جگہ، مگر روایت اگر انسان کے حقِ زندگی، حقِ تعلیم اور حقِ سوال کو کچلنے لگے تو اس پر نظرِ ثانی فرض بن جاتی ہے۔
دیامر کے سماجی اور شعوری مستقبل کی تعمیر کے لیے علما کرام، سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو ایک مشترکہ وژن کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ کسی ایک طبقے کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔ لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا، کیونکہ آدھا معاشرہ اندھیرے میں رکھ کر مکمل روشنی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
علما کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کے سوالات کو دبانے کے بجائے دلیل، حکمت اور مکالمے کے ساتھ جواب دیں۔ اختلاف کو فتنے کے بجائے فہم کا ذریعہ بنایا جائے۔ مدارس، مساجد اور تعلیمی اداروں کو خوف نہیں، شعور کے مراکز بنایا جائے۔
کیونکہ سوال دبانے سے خاموشی تو پیدا ہو سکتی ہے، مگر شعور نہیں۔
اور جس معاشرے میں شعور مر جائے، وہاں روایت بھی لاش بن جاتی ہے۔
دیامر کے پاس اب بھی موقع ہے—
ماضی کی عظمت کو حال کی بصیرت اور مستقبل کی امید سے جوڑنے کا۔




