سچائی کی قیمت

فرض کریں آپ ایک صاحبِ فکر انسان ہیں، یا آپ قلم کار ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ بہترین عالم ہوں، سیاسی، مذہبی اور دینی سوچ کے حامل ہوں، سماجی علوم اور سیاسی امور کی گہری بصیرت رکھتے ہوں۔ آپ کتابوں کے رسیا ہوں، معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی کے خوگر ہوں، اور آپ کی یہ خواہش ہو کہ کسی کے خلاف نہ لکھا جائے، نہ بولا جائے، بس غیر جانبداری سے سچ بیان ہوتا رہے، حق کا پرچم بلند رہے۔
پھر یہ جان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہمارے جیسے قبائلی، سیاسی، مذہبی اور فرقہ واریت زدہ معاشرے میں آپ بالکل اکیلے ہیں۔
آپ کا کوئی نہیں۔
سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے رہنما اور کارکن آپ کو پسند نہیں کریں گے، کیونکہ آپ ان کے تعصبات کا حصہ نہیں بنتے۔ سرکاری حکام آپ سے خوفزدہ بھی نہیں ہوں گے، کیونکہ آپ کے پیچھے کوئی ایسا گروہ موجود نہیں جو انہیں دباؤ میں لائے اور انہیں ان کی اوقات یاد دلا دے۔ مقتدرہ اور حساس ادارے بھی آپ کو گھاس نہیں ڈالیں گے، کیونکہ آپ نہ ان کے مفاد کے آدمی ہیں، نہ ان کے کھیل کا مہرہ۔ بلکہ آپ کے کھرے سچ، حق گوئی، انصاف کی باتیں، غیر جانبدارانہ رویہ اور سماجی رواداری پر مبنی تحریریں ان کے بنا بنائے کھیل کو بگاڑ دیتی ہیں۔
اور جو لوگ آپ کو، یا خود کو اصول پسند، آزاد فکر اور مصلح سمجھتے ہیں، وہ بھی اکثر ظاہری ڈرامہ کرتے ہیں۔ وہ بھی دل سے آپ کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ وہ مفاد کے رسیا ہی ہوتے ہیں۔
لہٰذا، یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ نے سچ اور حق لکھنا ہے، ایسا سچ جو کسی شخص، جماعت، مسلک یا مفاد کی طرفداری سے پاک ہو، صرف ملک و ملت اور انسانیت کے لیے ہو، تو آپ تن تنہا ہیں۔ جی ہاں بالکل تن تنہا، آپ کا کوئی نہیں۔
لیکن…اسی تنہائی میں ایک عجیب قسم کی شان ہے۔
یہ وہ تنہائی ہے جو بڑے بلکہ عظیم لوگوں کا مقدر بنتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ہم جیسے عیش پسند لوگ ان بڑے لوگوں میں شامل نہیں ہوسکتے، کیونکہ اس کے لیے قربانی اور ایثار کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم میں نہیں۔
اسلامی زاویہ نظر سے بھی دیکھیں تو سچائی کا راستہ ہمیشہ تنہا ہوتا ہے، اسلام نے بارہا یہ حقیقت بتائی ہے کہ حق کا راستہ کبھی بھی رش اور ہجوم کا راستہ نہیں ہوتا۔
قرآن کا فرمان بھی سمجھ لیجیے۔
"وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ”
اگر آپ زمین والوں کی اکثریت کی پیروی کریں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔یعنی اکثریت ہمیشہ حق پر نہیں ہوتی۔ لہذا اکثریت کی طرف داری بھی صراط مستقیم سے دور کر دے گی۔
رسول اکرم ﷺ نے کیا خوب فرمایا
"لا تَكُونوا إمَّعَةً” ( ترمذی، 2007)
ایسا نہ بنو کہ لوگوں کے پیچھے اندھا دھند چلتے رہو
یہ خوب جاننے کی ضرورت ہے کہ حق پر ڈٹ جانا، چاہے پورا معاشرہ مخالفت پر اُتر آئے،یہ پیغمبروں اور صدیقین کی راہ ہے۔
حضرت ابراہیمؑ اپنی قوم میں اکیلے تھے، مگر حق پر تھے۔
حضرت موسیٰؑ فرعون جیسے نظام کے مقابل اکیلے کھڑے ہوئے۔ نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک اکیلے جدوجہد کرتے رہے۔حق ہمیشہ تنہا ہوتا ہے، مگر اس کی روشنی کبھی بجھتی نہیں۔
سچ، حق اور غیر جانبداری کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ اس معاشرے میں آپ کو کوئی گروہ اپنا نہیں سمجھتا، کوئی طاقت ور آپ کا محافظ نہیں بنتا۔لیکن اس کا ایک عظیم فائدہ بھی ہے۔
جو لوگ گروہوں کے آلہ کار بنتے ہیں، مفاد کے لئے سفید کو کالا اور کالا کو سفید کہہ دیتے ہیں یا کر دیتے ہیں، وہ اپنے زمانے میں خوب مزے کرتے ہیں، ان کی زندگی موجوں میں ہوتی ہے اور عیاشیاں ان کے لیے معمول کی بات ہوتی ہیں، مگر ان کی موت بھی چند دن کی خبر ہوتی ہے۔
وقت انہیں بھلا دیتا ہے۔ بلکہ وقت انہیں قعر مذلت میں گرا دیتا ہے۔
مگر جو لوگ سچ کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جنہوں نے قلم کو ضمیر کا امانت دار بنایا ہوتا ہے، جو انصاف، دیانت، رواداری اور مظلومیت اور انسانیت کی بات کرتے ہیں، ظالم کو ظالم کہتے ہیں، غلط کو غلط کہنے کی جسارت کرتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں اگرچہ تنہا رہتے ہیں، آزمائشیں جھیلتے ہیں، مگر موت کے بعد ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں بلکہ امر ہوجاتے ہیں۔
دنیا میں ہزاروں ایسے لوگ گزرے ہیں جو سچ اور حق کی خاطر تن تنہا رہے، دکھ اٹھائے، لوگوں کی نفرت سہی، ظالموں کا نشانہ بنے، مگر آج دنیا انہیں عزت و احترام کے ساتھ یاد کرتی ہے۔
تو میرے پیارے قارئین! فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے
آپ نے ہی طے کرنا ہے کہ آپ کسی کا آلہ کار بن کر، کسی حکومتی، سیاسی یا فرقہ پرست گروہ کے مفاد میں لکھ اور بول کر، اپنی موت تک کے دن آرام سے گزارنا چاہتے ہیں؟
یا آپ حق، سچ، انصاف اور دیانت کی تلاش میں اپنی زندگی آزمائشوں میں مگر اپنی موت کے بعد ہمیشہ کے لیے امر ہونا چاہتے ہیں؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اور بہت دفعہ چپ رہنا اور سکوت بھی شاید انسان کو مطمئن کر دیتی ہے، اگر تمہارے قلم میں وہ جرات باقی نہیں کہ سچ کو روشن کر سکے،
اور اگر تمہاری زبان میں وہ سکت نہیں کہ حق کا علم بلند کر سکے، یا پھر حالات ایسے پیدا کیے جاتے ہیں کہ نہ آپ حق لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں، تو پھر خاموش رہنا سیکھ لو
کبھی کبھی خاموشی بھی سچ کہنے کی ایک لطیف صورت بن جاتی ہے۔ کیونکہ لفظ جب بوجھ بن جائیں، اور معاشرہ سننے سے انکار کر دے، تو خاموش رہ کر بھی انسان باطل کی تائید سے بچ جاتا ہے…
اور یہی بچ نکلنا بعض اوقات حق کے قریب ترین رویہ بن جاتا ہے۔




