کالمز

گلگت بلتستان میں ناقص اشیائے خوردونوش: خاموش قاتل اور اجتماعی غفلت

گلگت بلتستان صاف فضا اور قدرتی حسن سے مالا مال خطہ ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں انسانی صحت کے لیے ایک ایسا خاموش خطرہ تیزی سے پھیل رہا ہے جس پر نہ حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی متعلقہ ادارے۔ بازاروں، دکانوں اور حتیٰ کہ اسکولوں کے باہر فروخت ہونے والی ناقص، مضرِ صحت اور زائدالمیعاد اشیائے خوردونوش نے عوام الناس، بالخصوص بچوں اور خواتین کی صحت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
ملک کے دیگر حصوں سے بیمار بھینسیں ، مرغیاں، انڈے، ناقص آٹا، اور دیگر بے شمار انواع و اقسام کی اشیائے خوردونوش کی مارکیٹ گلگت بلتستان ہے۔ گذشتہ دنوں پنجاب سے لائی گئ بیمار بھینسوں کی ایک کھیپ کسی شہری شکایت پر دیامر کے مقام پر پکڑی گئ تھی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلہ اب سنگین ہوتا جارہا ہے۔
ناقص اشیائے خوردونوش کے مسلسل استعمال کے باعث گلگت بلتستان میں معدے، آنتوں، جگر اور گردوں کے امراض میں تشویشناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ فوڈ پوائزننگ، اسہال، ہیپاٹائٹس، شوگر اور کینسر جیسے موذی امراض کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر طبقہ بچے ہیں جو اسکولوں کے باہر کھلے عام فروخت ہونے والی غیر معیاری ٹافیاں، چپس، کولڈ ڈرنکس اور دیگر مصنوعی اشیا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اشیا نہ صرف ان کی جسمانی نشوونما کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ذہنی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔
اس تشویشناک صورتحال کی بنیادی وجہ مؤثر نگرانی اور متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ فوڈ اتھارٹی کا کردار یا تو نہ ہونے کے برابر ہے یا محض کاغذی کارروائی تک محدود ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی واضح نظام موجود نہیں، جس کے باعث غیر معیاری اشیا بلا روک ٹوک بازاروں میں پہنچ جاتی ہیں۔
دوسری بڑی وجہ عوامی آگاہی کا فقدان ہے۔ صارفین اکثروبیشتر قیمت کو معیار پر ترجیح دیتے ہیں اور لیبل، تاریخِ تنسیخ یا اجزا کی تفصیل دیکھے بغیر اشیا خرید لیتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ناقص اور سمگل شدہ اشیا آسانی سے کھپائی جاتی ہیں کیونکہ وہاں متبادل معیاری مصنوعات دستیاب ہی نہیں ہوتیں۔
مزید برآں، منافع کی اندھی دوڑ میں کچھ تاجر انسانی صحت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ناقص اشیا سستے داموں فروخت کر کے زیادہ منافع کمانا ایک معمول بن چکا ہے، جبکہ قانون کا خوف نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ صحت جیسے حساس معاملے پر متعلقہ محکمے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نہ باقاعدہ انسپکشن ہوتی ہے، نہ لیبارٹری ٹیسٹ، اور نہ ہی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی۔ نتیجتاً قانون شکنی کرنے والے مزید بے خوف ہو چکے ہیں۔
اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے گلگت بلتستان فوڈ اتھارٹی کو فعال، بااختیار اور جواب دہ بنایا جائے۔ تمام اضلاع میں باقاعدہ معائنہ ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو مارکیٹوں، گوداموں اور سرحدی داخلی راستوں پر اشیائے خوردونوش کی جانچ کریں۔
ناقص اور زائدالمیعاد اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف بھاری جرمانے، دکانوں کی سیلنگ اور قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ اسکولوں کے باہر غیر معیاری اشیا کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
عوامی آگاہی مہم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میڈیا، مساجد، تعلیمی اداروں اور سوشل پلیٹ فارمز کے ذریعے شہریوں کو معیاری خوراک کی اہمیت، لیبل پڑھنے اور مضر صحت اشیا کی نشاندہی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
آخر میں، شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ اگر ہم خود سستی اور ناقص اشیا خریدنے سے انکار کر دیں تو بازار میں ان کی کھپت خودبخود کم ہو جائے گی۔
ناقص اشیائے خوردونوش محض ایک انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سنگین انسانی اور سماجی بحران ہے۔ اگر آج اس خاموش قاتل کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں اس کی بھاری قیمت ادا کریں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام مل کر صحت کے اس مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہوں، تاکہ گلگت بلتستان کے باسی ایک صحت مند اور محفوظ زندگی گزار سکیں۔
واضح رہے کہ خالص اور محفوظ خوراک بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق خوراک تک رسائی حقِ زندگی اور حقِ صحت کا لازمی جزو ہے۔ عالمی منشورِ انسانی حقوق کے آرٹیکل 25 اور بین الاقوامی معاہدہ برائے معاشی، سماجی و ثقافتی حقوق کے آرٹیکل 11 میں ہر انسان کے لئے مناسب ، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک کو تسلیم کیا گیا ہے، جو باوقار زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ریاستوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کو ایسی خوراک فراہم کرنے کے لیے مؤثر قوانین، نگرانی اور حفاظتی اقدامات کریں جو صحت کے لیے مضر نہ ہو۔ ناقص اور آلودہ خوراک کی فراہمی نہ صرف انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی بھی شمار ہوتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button