کالمز

موسیقی اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ذولفیقار علی شاہ سے گفتگو

تحریر: شمس الحق قمرؔ 

اس سے پہلے کہ ذولفقار علی شاہ کا تعارف آپ سے کراؤں میں ایک اور کہانی آپ کو سنانے جا رہا ہوں ۔ دنیائے تحقیق میں، ہاورڈ گارڈنر، ایک اعلیٰ علمی محقق گردانے جاتے ہیں ۔ اُن کا ایک مشہور تحقیقی مقالہ Multiple Intelligences کے مطابق سیکھنے والوں کو آٹھ درجوں میں تقسیم کرکے دقیق النظری سے پرکھا گیا ہے ۔ یعنی گارڈنر کے مطابق انسانی دماغ آٹھ مختلف طریقوں سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ ان آٹھ طریقوں میں سے ایک طریقہ موسیقی کے ذریعے سیکھنے کا عمل ہے جسے Musical intelligence کہتے ہیں ۔اس دماغی استعداد کے حامل بچے موسیقی سے اپنے سیکھنے کا عمل جاری رکھتے ہیں ۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو موسیقی سنتے ہیں ، سمجھتے ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ذہنی آسودگی پاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ تحقیق پتھر پہ لکیر کی طرح حرف آخر ہو ،تاہم عملی تجربات کی روشنی میں اس نظریئیکیتصدیقی دستاویزات اور مسودات جابجا پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ اس نظرئے کی جانچ پڑتال پر بڑے پیمانے پر کام بھی ہو رہا ہے ۔لیکن ابھی تک اس نظرئے کو نفی ثابت کرتے ہوئے کوئی اور جاندار تحقیق سامنے نہیں آئی ہے ۔ لہذا ہم یہ کہنے میں شاید حق بجانب ہیں کہ اس نظرئے کو عملی جامہ پہنانا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ذہنی صلاحیتوں کو جانچنے کی تکلف گوارا نہیں کرتے بلکہ ہم نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اپنی طرف سے ایک منزل کا تعئین کیا ہوا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر ، انجینئر، ٹیچر، ادیب ، فلاسفر یا اور کچھ بنانا ہو تو وہی کچھ اُن کے ذہنوں میں ٹھونستے ہیں جو ہم سوچتے ہیں حالانکہ معاملہ یکسر مختلف ہے ۔ میں ہر گز یہ نہیں کہتا ہوں کہ ہمارا ، اپنے بچوں کو مستقبل کا ڈاکٹر ، انجینئر یا کسی اور پیشے میں دیکھنا غلط ہے بلکہ میں یہ خیال آپ سے بانٹنا چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو مستقبل میں مختلف پیشوں سے وابستہ دیکھنے کے کئے اُن کی ذہنی استعداد کا ناپ تول بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ ہمیں اپنے بچوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کی ضروت ہے جس کے ذریعے ان کے اندر سیکھنے کا عمل پروان چڑھے ۔ میں اس مضمون میں، موسیقی کے ذریعے سیکھنے والے بچوں کی تربیت پر چند ایک گزارشات والدین اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے بچوں پر سیکھنے کا عمل بوجھ بن کر نہ رہے ۔ آپ اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ کسی بھی کام کو بوجھ بنائے بغیر سیکھنا ہمیشہ سے آسان رہا ہے ، آپ اپنی مادری زبان ہی کو لے لیجئے کوئی بھی غیر زبان والا خواہ کتنی ہی سرتوڑ کوشش کیوں نہ کرے لیکن وہ ہماری مادری زبان اُس طرح سے کبھی بھی نہیں بول پائے گا / گی جسیے ہم بولتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے یہ زبان کھیل تماشے میں سیکھی ہے ۔بالکل اسی طرح انسان بچپن میں کوئی بھی کام آسانی سے سیکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کام کے سیکھنے کے عمل میں کوئی دباؤ یا قباحت کا احساس نہ ہو ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لئے وہ طریقے ڈھونڈیں کہ جسے اپناتے ہوئے ہم اپنے بچوں کے سکھنے کے عمل کو بامقصد بناسکیں ۔

23666_102091723161538_1352945_nمجھے اس اہم معاملے پر مضمون لکھنے کا خیال اُس وقت آیا جب میں نے ٹیلی ویژن پر چترال کے ایک ہونہار سپوت کو کھوارگیت، نغموں اور غزلوں کو نئے انداز سے گا کر باقی تمام زبانوں کی صوتی چاشنی کو انگشت بہ دندان کر تے ہوئے دیکھا ۔ اس گائیک کا نام سیدچ ذولفقار علی شاہ ہے اور تعلق لوٹ کوہ کریم آباد سے ہے ۔ پچھلے سال شہزادہ فخرلملک(مرحوم) کا مشہور زمانہ گیت ’’ فخر کھیو کوروم یہ محبتو تان ہردیہ ‘‘ ایک خاص صوتی لَمَس میں گاتے ہوئے ذولفقار کو سنا تھا ۔ جس میں انگریزی اور اردو کی دھنوں کا امتزاج تھا تاہم اصل کھوار دھن برابر ہاوی نظر آتی ہے ۔ اس گلوکار نے کھوار موسیقی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے جس میں صوفیانہ انداز بھی ہے اور بزمی اچھوتا پن بھی ۔

ذولفقار کی یہ کاؤش دیکھ کر میں نے khowar music and poetry facebook کے ایڈمن سے رابطہ کیا اور محترم نے مجھے ذولفقار کا فون نمبر بھی عنایت فرمایا ۔ ذولفقار سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے دلی آسودگی ہوئی ۔ موصو ف کی باتوں سے ایسا محسوس ہوا کہ گویا یہ صاحب موسیقی کو برائے موسیقی ہی نہیں بلکہ موسیقی کو برائے انسانی تربیت بھی نہ صرف خوب جانتے ہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں ۔ موصوف نے چترال میں s؂Musical Learnier اور سکولوں میں موسیقی کی درس و تدریس کی ضرورت چپر روشنی ڈالتے ہوئے بہت ہی شاندار خیالات کا اظہار کیا ۔ ذولفقار علی شاہ کے مطابق چترال میں بچوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو موسیقی کے ذریعے اپنے تعلیمی سفر کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ اُن کے خیال میں چترالی قوم نے گل نواز خان خاکیؔ ( مرحوم) امیر گل ( مرحوم) بابا فتح الدین ، محمد حسن اور اقبال الدین جیسے عظیم موسیقار اور گائیکی کے اساتذہ اور فن موسیقی کے بادشاہوں سے مستفید ہونے میں بہت دیر کی ہے ۔ ان کے فن اور آواز کے جادو کے ذریعے علم سیکھنے والوں کے لیئے استعمال کرنا چاہئے تھا ۔ ا گر ایسا ہوا ہوتا تو نہ صرف ہمارے بچے کھیل کھیل میں اپنی مخفی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہوتے بلکہ ہماری زبان بھی دنیا کی بڑی زبانو کی صف میں اِستادہ ہوتی ۔ موصوف کا یہ خیال بڑا جاندار اور وزنی و پرُ معنی معلوم ہوتا ہے کہ اس جدید دور میں ہماری قوم کو موسیقی سے تعلیم کی راہیں کھولنے میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

41098_139239672780076_7404409_nاگر موسیقی کو برائے تعلیم استعمال کرنے میں مزید تاخیر سے کام لیا گیا تو ہماری موسیقی سگریٹ کی کش اور شراب کی گھونٹ کی محتاج بن کے رہے گی کیوں کہ موسیقی جہاں ایک طرف روح کی غذا ہے تو دوسری طرف زہر ہلاہل بھی ہے ۔ موصوف کا خیال ہے کہ گورنمٹ کو چاہیے کہ موسیقی کو ذریعۂ تعلیم بنانے کے ضمن میں علاقے میں موجود گلوکاروں ، موسیقاروں ، شعر�أ اور اسی شعبے سے منسلک تمام فنکاروں کی صلاحیتوں کو علمی میدان میں استعمال کرنے کے مواقعے فراہم کرے ۔ علاقے میں مخلف غیر حکومتی تنظیموں کے تعلیمی مشن میں تعلیم کے اوپر گہری توجہ کی باتیں اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک تعلیم سیکھنے کے عوامل کا استعمال مفقود ہو ۔ صاحب موصوف سرکاری ،پرئیوٹ اور آغا خان ایجوکیشن کی زیر نگرانی مصروفِ عمل سکولوں کے اعلیٰ حکام کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرتے ہوئے تعلیمی نظریات اور تحقیق کی روشنی میں موسیقی کو ، مادری زبان کے اندر رہتے ہوئے ، قابل عمل بنانے کی اپیل کی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button