کالمز

’’عکسِ گلگت بلتستان کا عکس‘‘

عکسِ گلگت بلتستان میرے بزرگ دوست شیربازعلی خان برچہ کی نئی تصنیف ہے۔آپ یہ نہ سمجھے کہ بزرگ اور جوان کی دوستی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے تو اصل راز کی بات ہے کہ برچہ صاحب مجھے اپنے دوست سمجھتے ہیں۔میں تو ان کو گلگت بلتستان کے معدوے سنجیدہ اورمعتدل لوگوں میں سے ایک فرد خیال کرتاہوں اور سنجیدگی میرے قریب سے بھی چُھو کرنہیں گزرتی تو بے ہودگی اور سنجیدگی کا کیا اتصال و اقتران؟۔

اگر دنیا میں برے اور بے ہودہ لوگ نہ ہوتے تو صرف اچھے اور سنجیدہ لوگوں کی قدر ومنزلت کون کیوں کر جانتا اور کرتا۔دنیا کے تمام اچھے لوگوں کو برے لوگوں کا شکریہ اداکرنا چاہیے۔اگر برے لوگ نہ ہوتے تو اچھے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔خیر! میرے سامنے برچہ صاحب کی خوبصورت کتاب عکسِ گلگت بلتستان کھلی ہوئی ہے۔اس کتاب کی پہلی زیارت نارتھ نیوز میں ہوئی جس دن یہ کتاب وہاں پہنچی تھی۔دو گھنٹوں تک کتاب کے مختلف مقامات دیکھتا رہا۔بالآخر برچہ صا حب کونئی نویلی دلہن پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے ابھی تک کتاب نہیں دیکھی ہے اور نہ مجھے اطلاع ہے کہ کتاب طباعت کے بعد گلگت پہنچی ہے۔ خیر بقول برچہ صاحب کے میں اولین مبارکباد دینے والوں میں ایک ہوں۔ انہوں نے بعد میں فون کرکے بتایا کہ کتاب کا نسخہ آپ کے لیے رکھا ہوا ہے، جب بھی موقع ملے وصول کیجیے گا۔ یوں کافی دیر سے میں نے یہ خوبصورت کتا ب برچہ کے مزین دستخطوں کے ساتھ ان کے یدمبارک سے وصول کیا۔کتاب کو بہت غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔گلگت بلتستان کے حوالے سے اتنی مفیداور تازہ ترین معلومات کسی کتاب میں یکجا نہیں۔ اگر گلگت بلتستان سروس کمیشن قائم ہوا تو برچہ صاحب کی کتاب مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے سب سے اہم اور لازمی قرار دی جائے گی۔ پوری کتاب کی ورق گردانی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ معلومات کی فراہمی میں محترم برچہ صاحب نے قطعاً خیانت سے کام نہیں لیا ہے۔ ورنہ تو ہمارے ہاں مذہب، مسلک ، قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تواریخ اور کتابیں لکھی جاتی ہیں۔اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مکروہ کوششیں تو معمول کی بات ہے۔ انہوں نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ فراہمی معلومات میں بھول چوک کی گنجائش ہوسکتی ہے۔اور بھول چوک کی پکڑ تو خدا بھی نہیں کرتے، لہذا اگر کسی صاحب کو ایسی کوئی کمی نظر آئے تو حرفِ تنقید کے بجائے اصلاح کی غرض سے بذریعہ تحریر برچہ صاحب کو مطلع کریں، مجھے امید ہے کہ وہ اگلی اشاعت میں اس کمی کو پورا کردیں گے۔عکسِ گلگت بلتستان میں انتہائی اختصار کے ساتھ گلگت بلتستان کے حوالے سے تمام معلومات دی گئی ہیں۔سیاحت، مشہور جھیلیں،گلیشئر، درے،صحت، پولیس، معدنیات،فلک بوس پہاڑ،مقامی زبانیں، آثار قدیمہ،مواصلاتی نظام،جمہوری و سیاسی ادارے اور شخصیات و پارٹیاں،گلگت بلتستان اسمبلی کا ارتقائی سفر ، مذہب،عسکریات و انتظامیہ،نظام عدل،ادبی انجمنیں و سرگرمیاں، اخبار، میگزین، صحافی ،مشہور قلعے و مساجد،تعمیراتی ورثے، غرض ہر چیز کو مختصرا سمیٹا گیا ہے۔دو چیزوں کی معلومات تفصیل اور خوبصورتی کے ساتھ کتا ب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایک مطبوعہ مواد کی جامع فہرست، جس میں گلگ بلتستان کی تمام روزنامہ و ہفتہ روزہ اخبارت کی فہرست، ایڈیٹر ، رپوٹراور تمام عملہ اوردیگر تمام لازمی معلومات دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی ماہ نامے و سہ ماہی رسائل، ڈائجسٹ، اور کتابچوں کی بھی مختصر معلومات بمع عہدہ داروں کے بیان کی گئی ہیں۔سرکاری صحافیوں اور عامل صحافیوں کے نام ، عہدہ اور ادارے کے تعارف کے ساتھ کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔انگریزی اخبارات کی فہرست اور عہدہ داروں کا ذکر بھی شامل کتا ب ہے۔ برچہ صاحب نے بخل سے کام نہیں لیا ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے رپوٹروں کا ذکر بھی کیا ہے۔دوسری چیز کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔ یہ حصہ بہت دلچسپ ہے۔یہ 134صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں صاحب کتا ب نے گلگت بلتستان سے متعلق آٹھ سو کے قریب کتابوں کا مختصر تعارف انتہائی جامع انداز میں پیش کیا ہے۔میں نے جب اس حصہ کو پڑھنا شروع کیا تو ورطہء حیرت میں مبتلا ہوا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اتنی زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ برچہ صاحب نے انگلش ، اردو اور اردو تراجم پر مبنی تمام کتابوں کی تعداو و تفصیل دی ہے۔اس حصہ کو بغور پڑھنے کے بعد یہاں بھی مجھے اندازہ ہوا کہ محترم برچہ صاحب نے کسی قسم کے تعصب کو اپنی کتاب کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ اور ڈنڈی مارنے کے مکروہ عمل سے حتی الواسع کوشش کی ہے۔ ہر مکتبہ فکر و علاقے اور زبان کے لوگوں نے جو بھی جس نام سے بھی لکھا ہے اس کی نشاندہی کی ہے۔ آفاقی لوگوں کی یہی خصوصیت باقی تمام خصوصیات پر بھاری ہوتی ہے۔وہ انسانیت کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ’’ الخلق عیال اللہ‘‘ کے مصداق تمام انسانوں سے بلاتفریق محبت کرتے ہیں اور بغیر تعصب و جانبداری کے معلومات فراہم کرتے ہیں۔جن شخصیات نے دامے درمے قدمے سخنے کتاب کی تیاری میں ان کی مدد کی ہے ان کا بغیر تامل کے شکریہ ادا کیا ہے۔اور جن کتابوں اور رسائل وجرائد اور اداروں سے معلومات و تصاویر لی ہیں ان کا بھی واضح حوالہ دیا ہے۔البتہ تین چیزوں نے مجھے متحیر کردیا ہے۔ ایک اس کتاب کا لمباچوڑا انتساب ہے، میری دانست میں انتساب مختصر مگر پر اثر ہونا چاہیے۔دوسری چیز گلگت بلتستان کی معروف سیاسی و مذہبی تنظمیں ، تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان و کوہستان اور انجمن امامیہ کا ذکر کہیں نہیں ہے۔اور نہ ہی ان کے بانیا ن اور مرکزی رہنماؤں کا۔ اور تیسری چیز جو ہے وہ کتاب کے صفحہ نمبر 196سے 199تک تعلیقہ الف کے ماتحت ’’ گلگت بلتستان کیوں اہم ہے؟ کے عنوان سے نمبروارچند اہم پوائنٹ گنوائے گئے ہیں،جہاں گلگت بلتستان کی عظمت و اہمیت اور حساسیت وافادیت کے حوالے سے تفصیلات مندرج ہیں۔ان نمبروار معلومات سے اس علاقے کی ہرچیز عیاں ہوجاتی ہے۔ میں پڑھتا جاتا اور محظوظ ہوتاجاتا مگرشق نمبر ۳۵ سے ۳۸تک پڑھ کر میں انتہائی مغموم ہوا۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔ شق نمبر ۳۵۔دنیا کا یہ واحد خطہء ہے جس کی کوئی مسلمہ سیاسی حیثیت نہیں۔ شق نمبر ۳۶۔دنیا کا یہ وہ خطہ جو آج تک دو ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ ہے۔ شق نمبر۳۷۔دنیا کا یہ آنوکھا خطہ ہے جو قانونی طور پر پاکستان میں شامل ہے اور نہ اس سے باہر۔شق نمبر۳۸۔دنیا کا یہ ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے جو آبی وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے اپنے عوام کو وافر بجلی دینے سے قاصر ہے۔اورجب پڑھتے پڑھتے آخری شق پر پہنچاتو میں کافی دیر تک اپنی انگلیا ں منہ میں دابے رہ گیا۔اور خیالات کی دنیا میں اتنا دور گیا کہ وہاں سے واپسی کافی دیر بعد ہوئی۔ جب دیکھا تو خود کو لکھتے پایا۔ برچہ صاحب نے دو سطروں کے اندر اتنی عظیم سچائی کا اعتراف کیا کہ بس کیا کہیں۔ آپ بھی پڑھیں اور سردھنیے۔شق نمبر ۵۴۔یہاں کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ بیرونی عناصر کے اشاروں پر ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ لگاتے اور قتل وجدال کرتے ہیں جس سے مقامی معیشت ختم ہوتی جا رہی ہے ورنہ ہماری سرزمین جنت سے کم نہیں۔ قارئین آپ خود انصاف فرمائیں۔ آپ کو سوچنے اور مبہوت کرنے کے لیے اپنے ایک پرانے کالم کا ایک پیراگراف درج کررہا ہوں جو برچہ صاحب کے خیالات کی مکمل ترجمانی وتشریح کرتا ہے، ملاحظہ کیجیے۔’’کاش !آج کے بعد اہل سنت اور اہل تشیع بھی تعلیم کو اپنا پہلا اور آخری ہدف بنائے۔اپنی ترجیحات میں اولین ترجیح قرار دیں۔ تعلیم کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنائے اور اعلان کریں کہ آج کے بعد ہم لڑائی کے بجائے تعلیم و تربیت کو اپنا موٹو بناتے ہیں۔ ہم بھی اسماعیلیوں کی طرح تعلیم اور صرف تعلیم پرتوجہ دیں گے۔ تو پھر گلگت بلتستان میں کتنی خوبصورت معاشرتی زندگی کا آغاز ہوگا، اگرایسا ہوا تو یقین جانیں لوگ پیرس اور واشنگٹن سے گلگت بلتستان میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔کیوں کہ گلگت بلتستان کے ان کالے پہاڑوں ، بہتی ندیوں، آبشاروں، دریاؤں ،گھنے جنگلوں ،خوبصورت جھیلوں اور رس بھرے پھلوں میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ پیرس اور دیگر مغربی ممالک ان کی گرد تک نہیں پہنچ سکتے۔ اورپھر یہاں علم و ادب کے ذریعے سونے کے وہ محل تعمیر کیے جائیں گے کہ دنیا ورطہء حیرت میں رہ جائے گی‘‘۔

بہر صورت کتا ب کامکمل مطالعہ سے گلگت بلتستان کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ آپ بھی اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ آنے والے وقتوں میں کام آئے گی۔شیربازعلی برچہ صاحب ایک معتبر قلمی نام ہے۔ ان کا لکھا ہوا مستند مانا جاتا ہے۔ برچہ صاحب کی کئی اور تصانیف اور علمی مقالے پہلے ہی زیور طبع سے آراستہ ہوکے دادِ عام پاچکے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ عکسِ گلگت بلتستان ان کا اچھوتا کارنامہ ہے۔ جو انہیں صدیوں تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔عکسِ گلگت بلتستان میں آپ کو وہ سب کچھ پڑھنے کو ملے گا جو آپ گلگت بلتستان کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہو یا جاننا چاہتے ہو۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button