بندۂ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
ناہیدہ غالب
مو لا علی کا قو ل ہے ’’ اگر ہر انسا ن اپنے حصے کی روٹی کھا ئے تو دو سر ا کو ئی بھو کا نہیں رہے گا۔‘‘ کا رل ما رکس نے اپنی کتاب ’’دا س کیپٹل ‘‘کے ذریعے سے پو ر ی دنیا کے مز دو ر طبقے کو ایک نیا شعو ر دیالیکن اِس پر عمل بہت دیر سے ہو ا 1886. ء میں شکا گو کے مز دو ر طبقے نے اپنے حقو ق کے لیے نعرہ حق بلند کیا اور اپنی قیمتی جا نو ں کا نذ ر ا نہ آج دنیا بھر کو ’’یو مِ مز دور کی صور ت میں دے گئے و گر نہ جتنا لا پر وا ہ اپنے حقو ق کے حو ا لے سے آ ج کا انسا ن ہے اور کو ئی نہیں اگر شکا گو کا و ا قعہ نہ ہو ا ہو تا تو شا ید یہ دن بھی دوسر ے عا م ایّا م کی طر ح گز ر جا تااوراِس دن کی کو ئی اہمیت نہیں ہو تی۔
مزدور دینا ئے تعمیر ا ت کا با دشا ہ کہلاتا ہے اگر ہم آ ج کے دن اِس عظیم ہستی کو نظر اندا ز کر یں گے تو یقیناََ ہما ر ی یہ حر کت تو ہین کے زمر ے میں آجا ئے گی۔آج پا کستا ن کے سا تھ سا تھ دنیا کے کئی کو نو ں میں مختلف طر یقو ں سے معا شر ے کے سب سے عظیم طبقے کی کا ر کر دگیو ں کو سر ا ہا جا تا ہے۔لیکن یہ با ت روزِ رو شن کی طر ح عیا ں ہے کہ1947 ء میں جب پا کستا ن آ ز اد ہو ا تھاتب سے
پا کستان انڑ نیشنل لیبر آ ر گنا ئز یشن کا ممبر بن چکا تھا لیکن 1972ء سے با قاعدہ آ ئینی طو ر پر یو مِ مزدور بنا نے کا اعلا ن ہوا تب سے لے کر آ ج تک الفا ظ کے سُلجھا ؤ کے ذریعے سے ہر سا ل یو مِ مئی کو اِس نا دار طبقے کی شا ن میں خر ا ج تحسین پیش کر نے کے سا تھ سا تھ چند وعدو ں کا بھی اعلا ن کیا جا تا ہے۔ہر ایک اِس با ت سے بخو بی وا قف ہے کہ یہ وہ سیا سی وعدے ہو تے ہیں جنہیں صر ف اور صر ف خا ص اِس دن کے لیے تیا ر کیے جا تے ہیں پھر ہو تا کیا ہے ،دن گزر گیا ،را ت گئی با ت گئی۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اِس دن کا خا ص مشغلہ نشستن ،گفتن اور بر خا ستن کی حد تک ہی محدودہو تا ہے ۔آ خر کب تک الفا ظ اور جملو ں کے ذر یعے سے زُ با نی کلا می مزدور وں کے حقو ق دیے جا ئیں گے۔کیاان حقو ق کو کبھی عملی جا مہ بھی پہنا یا جا ئے گا؟
اگر تا ر یخ کے اور اق کا مطا لعہ کیا جا ئے تو مز دو ر وں کے حقو ق کے حو ا لے سے جہا ں ہر طر ح کے مکتبہ فکر کی خد ما ت کو فر ا مو ش نہیں کیا جا سکتا و ہا ں بر صغیر کے اہلِ قلم کی خد ما ت کو فر ا مو ش نہیں کیا جا سکتا۔جنہو ں نے ’’ادب بر ا ئے زندگی‘‘ کا بو ل با لا کیا ۔تر قی پسند تحر یک نے کا ل ما ر کس اور لینن کے نظر یے کو اپنی تحر یر و ں کے ذر یعے سے عملی شکل دینے کی کو شش کی ۔1935ء میں سجا د ظہیر نے جب قلم کے ذریعے بر صغیر پا ک و ہندمیں انقلا ب لا نے کے با ر ے میں سو چا تو آ پ کی سو چ سے متا ثر ہو کر بہت سے لکھا ر یو ں نے آ پ کا سا تھ دیا جن میں ڈا کڑ ایم ڈی تا ثیر، ملک را ج آ نند،ڈا کڑ جیو تی گھو ش اور پر مو د سین گپتا کے نا م سر فہر ست ہیں۔تر قی پسند تحر یک کا سب سے بڑ ا مقصد یہ تھا کہ انسا نی زند گی جس طر ح سے رو ئے زمین پر مو جو د ہے اُسی طر ح سے بیان کیا جا ئے یعنی جس طر ح سے بو ر و ژ وا ئی نظا م اس دھر تی پر اند ھا دھند را ج ہے اور سر ما یہ دا ر ی کی اوٹ میں جا گیر دا ر کسا نو ں کاجس طر ح سے استحصا ل کر تے ہیں، اُن حقا ئق پر سے پر دہ اُ ٹھا یا جا ئے اور ان نا انصا فیو ں کا ازا لہ کیا جا ئے۔کیو نکہ سر ما یہ دا ر ایک مزدور سے جتنا کا م لیتے ہیں وہ مزدور کو اتنی اُ جر ت نہیں دیتے۔جب کہ سر ما یہ دار ان مز دو رو ں کے خو ن پسینے کی کما ئی سے اپنی دو لت کی عما ر ت تو کھڑ ی کر تے ہیں لیکن مزدور کے با ر ے میں کبھی نہیں سو چتے کہ جتنی اُجر ت مزدور کو ملتی ہے وہ تین وقت کی رو ٹی کی کمی کو بھی پو را نہیں کر سکتی۔اور یو ں ایک مزدور ہمیشہ سے غریب رہتا ہے اور اپنے بچوّ ں کی تعلیم و تربیت سے بھی محر و م رہتا ہے۔
تر قی پسند مصنفین نے بو رو ژ و ا ئی نظا م کی اپنی تحر یر و ں میں کھُل کر مذ مت کی ۔جن میں سے چند ایک پر یم چند کا نا و ل ’’ سو زِ وطن‘‘ اور افسا نہ ’’کفن‘‘ جبکہ سجا د ظہیر کا نا ول ’’لندن میں ایک شا م‘‘ اور افسا نو ں کا مجمو عہ ’’انگا ر ے‘‘،احمد ندیم قا سمی کا افسا نہ ’’سفا ر ش‘‘ قا بلِ ذکر ہیں۔(یو ں تو تر قی پسند و ں نے بہت سا اثا ثہ ادب کو دیا ہے اور دے رہے ہیں یہا ں چند ایک جو یا د دا شت میں تھے لکھ دیا۔)نہ صر ف ادیب تر قی پسند ی سے متا ثر ہو ئے بلکہ تر قی پسند خیا لا ت سے شعرا بھی بہت متاثر ہو ئے۔۔جن میں سے چند ایک جو ش ملیح آ با دی، فیض احمد فیض،احسا ن الحق دا نش جو شا عر مزدور کے لقب سے مشہو ر ہو ئے،سا حر لد ھیا نو ی احمد ند یم قا سمی اورسر دار جعفر ی وغیر ہ قا بلِ ذکر ہیں۔احسا ن دا نش کی نظم ’’ آ زا دی‘‘ اور جو ش ملیح آبا دی کی نظم’’کسان ‘‘ میں مزدور طبقے کی بھر پو ر نما ئند گی نظر آ تی ہے۔اگر چہ بہت سے ادیب تر قی پسندتحر یک سے منسلک نہیں رہے لیکن پھر بھی تر قی پسند خیا لا ت سے متا ثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکے ۔جیسے علا مہ محمد اقبال نے با ر ہا اپنی شا عر ی میں مزدور طبقے کی نما ئند گی کی ہے جیسے
اٹھو میر ی دینا کے غر یبو ں کو جگا دو کا خ امرا کے د ر و دیو ا ر ہِلا دو
جس کھیت سے دہقا ں کو میّسر نہیں روزی اُ س کھیت کے ہر خو شہ گند م کو جلا دو
اپنی ایک نظم ’’ایک جا گیر دا ر سے‘‘ میں اقبا ل نے خو ب کہا ہے
دہ خدایا ! یہ زمین تیر ی نہیں ،تیر ی نہیں تیر ے ابا کی نہیں ،تیر ی نہیں ،میر ی نہیں
آ ج بھی دنیا کے ہر کونے میں مزدوروں کا استحصا ل ہو تا ہے چاہے مز دور صر ف کسا ن یا کسی فیکڑ ی میں کا م کر نے والا ہی نہیں ہو تا بلکہ یہاں ہر وہ شخص مز دور ہے جو تین وقت کی روزی روٹی کے لیے محنت مشقّت کرتا ہے۔ آج صر ف ما ضی کو یا د کر تے ہو ئے یا ان عظیم ادیبو ں اور شعر ا کو پڑ ھنا ہی کا فی نہیں بلکہ ان تما م خیا لا ت پر کو ئی لا ئحہ عمل اپنا نے کی ضر و رت ہے ۔
میرے پیارے اقا محمد رسول اللہ نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کا معاوضہ دیا جایے، کاش اج ہمیں وہ مزدوروں کا امام محمدعربی یاد اتا