کالمز

گلگت میری نظر میں

گلگت کو خدا نے قدرتی جمال سے سجایا ہے گلگت کا نام سنتے ہی ذہن میں فطرت کے حسین مناظر گھومنے لگتے ہیں چلیں آج گلگت کو بھی ایک نظر دیکھ لیں ۔۔گلگت گلگت بلتستان کا ہیڈ کوارٹر ہے تین پہاڑی سلسلوں اور تین دریاوٗں کا سنگم اسی سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹکڑا کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ تین پہاڑی سلسلے ہندوکش قراقرم اور ہمالیہ دریا سکردو ہمالیہ سے دریا ہنزہ قراقرم سے اور دریا گلگ۔ت ہندوکش سے اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو چین روس افغانستان اور ہندوستان کی سرحدیں بھی اس خطے کو چھوتی ہیں اس خطے کی تاریخ توپرانی ہے لیکن تحریری شکل میں موجود نہیں اس خطے سے مطلق جو مواد تحریری شکل میں ہے وہ دور شری بدت سے شروع ہوتا ہے یہاں میرا مقصد یہ ہرگز نہیں میں تاریخی دفتر کھول کر بیٹھوں ویسے بھی ہمیں تاریخ سے کویٗ سروکار نہیں ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھنا نہیں چاہتے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ماضی سے سبق سیکھے بغیر جو کہ ممکن نہیں تاریخ کا حوالہ اورتعارف اسلےٗ پیش کیا کہ میں آپکو اسی تاریخ میں سے ایک ایسئ بہادر خاتون حکمران کے دور کا ایک عظیم کارنامےکا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے ہی آج کا گلگت گلگت ہے ورنہ شاید اس کی شکل کچھ اور ہوتی

hidayatجی ہاں اس مدبر جراعت واستقلال کی پیکر اور زیرک خاتون کا نام رانی جوار خاتون تھا جو دادی جواری کے نام سے مشہور ہویٗ اور آج بھی دادی جواری کا نام باقی اور زندہ ہے ۔وہ اس لےٗ کہ اس کے دور کامشہور کارنامہ کارگہ نالے سے گلگت شہر کے لےٗ نہر کی تعمیر ہے ۔۔۔دادی جواری کا دور حکومت 1652 سے 1680 تک بنتا ہے ۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کہ اس زیرک خاتون نے اس سارے دور کو اپنے بیٹے جیٗ خان کی ولایت پر حکمرانی کرکےگزارا ۔۔اور کارگہ سے نہر کھدوانے کا دور غالبا ۱۶۶۰ بتایا جاتا ہے اس نہر کی کھدایٗ اور اس کام کو ضلع دیامر کی تحصیل داریل کے لوگوں نے مکمل کیا اور دادی جواری نے اہل داریل کو انعام کے طور پر کھنبری کا علاقہ عطا کیا ۔۔اس روسے دیکھا جاےٗتو دیامر کے عوام کا گلگت پر بہت بڑا احسان ہے آبپاشی کی یہ نہر آج بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے اور آج گلگت کے جو کھیت سرسبز اور لہلاتے ہوے ہمیں نظر اتے ہیں اور اس کی خوبصورتی کو دوچند کر رہیں ہیں وہ اس نہر کی بدولت سے ہی ہے ۔آج جب میں اس نہر سے جڑی ہویٗ سڑک سے گھر کی سمت جا رہا تھا تو گلگت کے لہلاتے کھیتوں اور سرسبز باغات نے مجھے دادی جواری کی یاد دلایٗ ۔۔۔ان تمام باتوں سے ہٹ کر اس نہر کی انجئرنگ بھی ایک شاہکار سے کم نہیں بلاشبہ اس زمانے کی تمام تر دشواریوں کے باوجود اس کا سروے کمال اور لا جواب ہے ۔۔ کارگہ نالے سے لیکر باسین پائین کے بالایٗ حصے تک یہ نہر سنگل یعنی واحد ہے اس جگہ کو بسین دو بوچی یعنی بسین دو چناروں والی جگہ کہاجاتا ہے اور یہ دو چنار دادی جواری کے دور کے بتاےٗ جاتے ہیں جو آج بھی موجود ہیں۔۔اس دو بوچی جگہ کو میں جواری ڈسٹریبیوشن پوانٹ کا نام دینا پسند کرونگا کیونکہ اسی مقام سے یہ نہر دو حصوں میيں تقسیم ہو جاتی ہے بالایٗ نہر کو آجینی دلہ اور پائین والی کو کھیرینی دلہ کانام دیا گیا۔۔۔ بالایٗ نہر یہاں سے ہوتے ہوےٗ کھر، اولڈ پولو گرونڈ ،نگرل ،کلچنوٹ، کھومر، ہیلی پیڈ جوٹیال کے زرین علاقوں تک جبکہ پائین نہر امپھری، مہربان پورہ، مجینی محلہ ، کپل خان، یادگار محلے سے گذرتی ہویٗ سونی کوٹ پائین تک کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دادی جواری کی یہ نہر پورے گلگت کی آبپاشی کی ضروریات کو مد نظر رکھکر تعمیر کروایٗ گیٗ جبکہ آج جدجد مشینری کے باوجود سکیمیں سال بعد ہی اپنی افادیت کھو دیتی ہیں اور کسی کام کی نہیں رہ جاتی ہیں اور یہی فرق ہے پرانے وقتوں کے حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں کا وہ کام کر کے نام بناتے تھے اور آج کے حکمران پیسے بنا کر نام کمانا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں نام کے لےٗ دادی جواری کی جیسی نہر بنوانا ضروری ہے جس کے باعث دادی جواری آج تین سوسالوں بعد بھی زندہ جاوید ہے ۔۔۔وہ نہر جو ہماری پانی کی ضرورت اور روزی کا باعث تھی اسے ہم لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں کس حال تک پہنچایا اس کی کہانی آئندہ لیکن اتنا بتادوں کہ اگر ہم اس نہرسے فایدہ اٹھاتے تو آج گندم کی سبسیڈی کے لےٗ دھرنے دینے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button