علاقائی پسماندگی۔ ذمہ دار کون؟
اگر ہم کسی علاقے کی سطح پر عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندوں کی اجتماعی کارکردگی کے حوالے سے بات کریں تو کئی پہلو نظر آتے ہیں ایک طبقہ جسے نام نہاد الیکشن کے دوران ذاتی طور پر فائدہ پونچے ہوئے ہوتے ہیں اُن سے اگر معاشرتی اجتماعی مسائل پر بات کریں تو گراں گزرتا ہے بلکہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار بھی نہیں ہوتے کہ ہمارے معاشرے میں اجتماعی حوالے سے بھی کچھ کیا جاسکتا ہے۔
ایک طبقہ ایسا ملتا ہے جنکے اندر تبدیلی کے عنصر موجود ہونے کے باوجود علاقائی رسم رواج معاشرتی تعلقات کی خاطر اپنے مخالف طبقے سے الجھنا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں وہی لوگ راج کر سکتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو رہنما سمجھے جاتے ہیں جنہیں جھوٹ ذیادہ بولنا آتا ہو کرپشن ذیادہ کرنے اور اسلامی اقدار کی ذیادہ تر خلاف ورزی کرنے کا تجربہ رکھتا ہو ۔ایک اور طبقہ جو تماشائی ہوا کرتا ہے انہیں معاشرتی سوچ اور شعور کے باوجود کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ معاشرہ کس سمت جا رہا ہے ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ اُنکی رائے اور مشورے کا نہ کوئی سُننے والا ہے نہ رائے کی کوئی اہمیت ہو تی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ معاشرتی اصولوں کے خلاف ورزیوں کا صرف تماشا دیکھیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ جس معاشرے کا حصہ ہے چاہئے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو معاشرتی ذمہ داری ہر شخص پر لاگو ہوتی ہے بھلے ہی ہماری باتوں پر کوئی توجہ دینے والا کوئی نہ ہو۔آج کوشش کروں گا کہ سکردو حلقہ 3میں پائی جانے والی علاقائی پسماندگیوں اور ووٹ لیکر غائب ہونے والے نمائندوں کے حوالے سے کچھ باتیں کروں کیونکہ معاشرے کی تعمیر اور ترقی کے حوالے سے عوامی نمائندوں کا بڑا عمل دخل ہوتاہے۔اگر ہم بات کو سرمک سے شروع کریں تو مجھے نہیں معلوم کی سرمک معاشرتی طور پر کتنا پسماندہ ہے لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس علاقے میں کافی تعداد میں پڑھے لکھے اور اسر رسوخ والے لوگ بستے ہیں جو معاشرتی ذمہ داریوں کو خود سے حل کرنے کیلئے کوششیں کرتے ہیں لیکن جب ہم سرمک نالے کی بات کریں وہاں کی معاشرتی پسماندگی اس حلقے سے منتخب نمائندے کیلئے سوالیہ نشان ہے یہاں کے باسی آج بھی بنیادی حفظان صحت اور تعلیم اور معاشرتی ترقی سے محروم ہے۔ اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مہدی آباد چلیں تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے لوگ حاکمانہ سوچ کے مالک ہوتے ہے ماضی میں یہاں کے لوگ ایک کثیر آبادی پر حاکم ہوا کرتے تھے مہدی آباد والے سیاسی حوالے سے کافی اثر رسوخ رکھتے تھے یہی وجہ ہے مہدی آباد کو سیاسی مسکن کہا جاتا تھا۔ قائد عوام ذولفقار علی بھٹو شہیدنے بھی دورہ بلتستان کے موقع پر یہاں سیاسی جلسے سے خطاب کیا تھا یہاں کے وزیر خاندان بلتستان کی سیاست میں ایک مقام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج مہدی آباد سے تعلق رکھنے والے کثیر تعداد میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہے۔ مگر بدقسمتی اس یہاں کی سیاست بھی محدود رہے لوگوں کو محکوم بنانے کیلئے یہاں کی سیاست نے اہم کردار ادا کیا لیکن آس پاس کے علاقوں سے محرومیت ختم کرنے کے حوالے سے کوئی مثبت کرردار ادا نہیں کرسکے جسکی وجہ سے یہاں کی سیاست مستقل طور پر زوال پذیر ہو گئی ۔ اسد زیدی شہیدکی ایک طویل حکومت اور حاجی فدا محمد ناشادکی سرمایہ دارانہ سیاست نے یہاں کی سیاست کو حد سے ذیادہ نقصان پونچایایہ بھی کہا جاتا ہے کہ الیکشن کے دوران علاقائی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے خلیجی ممالک میں خدمات انجام دینے والوں سے قومی وقار کا نعرہ لگا کر زرمبادلہ بھی منگائے پھر بھی سیاسی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکے۔ لیکن اس کے باوجود اس علاقے میں علاقائی پسماندگی نہ ہونے کے برابر ہے اس پوری پٹی جیسے کتی شو، دپا، غاسنگ، منٹھوکھا اور منٹھونالہ وغیرہ سے متعلق تمام سرکاری فنڈز عرصہ دراز تک یہاں سے نکل نہیں سکے دوسرے علاقوں کی سرکاری پوسٹوں پر بھی یہاں کے لوگ تعینات ہوتے رہے یعنی اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہو گا کہ سابقہ ادار میں علاقہ جات کو مسلسل نذر انداز کر کے اس علاقے کی تعمیر ترقی پر لگایا جسکی وجہ سے ایک طویل سیاسی تنہائی کے بعد بھی معاشرتی ترقی کے حوالے سے یہاں کوئی فرق نہیں پڑا یہاں کئی سو ایکڑ بنجر اراضی ماضی میں آباد کرائے گئے جس سے آج تک مہدی آباد والے آج بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔لیکن جب ہم یونین کونسل ہم کتی شو کی بات کریں تو معاملہ قدرے مختلف ہے حالانکہ یہ بالائی علاقہ جات ایک الگ یونین کی کونسل حیثیت بھی رکھتے ہیں ہے لیکن یہاں ترقیاتی کام حسین آباد اور مہدی آباد کے ایک گاوں کے برابر نہیں کتی شو کے عوام نے اپنے پڑوس والوں کو نظرانداز کر کے ہمیشہ موجودہ منتخب وزیر صاحب کا ساتھ دیا لیکن انہیں سیاسی وفاداری کا صلہ تو نہیں مل سکا البتہ سیاسی مخالفین نے یہاں کے عوام سے سیاسی انتقام خوب لیا ۔اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے غاسنگ کیطرف چلیں تو حالات اور مختلف نظر آتے ہیں غاسنگ کو ایک سازش کے تحت کچھ مقامی مفاد پرستوں کے ساتھ ملکر آج تک پسماندہ رکھا گیا یہاں کے وسائل کو بروئے کار لانے کے حوالے آج تک کسی بھی نمائندے کی طرف سے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا ۔
ماضی میں غاسنگ کی سیاست میں مرکزیت کے سبب سیاسی حوالے سے ایک الگ مقام رکھنے کے ساتھ یہاں کے عمائدین علاقائی معاملات میں فکر نظر رکھتے تھے لیکن بدقسمتی سے اس اتحاد کو نقصان پونچانے کیلئے کئی حربے استعمال ہوئے نااہل افراد کو عمائدین کی کرسی سنبھالنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے اس علاقے کی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوا اور ایک سازش کے تحت مرکزیت کو ختم کرائی گئی۔جس طرح مہدی آباد میں کئی سو ایکٹر پر مبنی بنجر اراضی کو ماضی میں سیاسی بہتر اثررسوخ ہونے کے سبب قابل کاشت بنایا بلکل یہی معاملہ غاسنگ کا بھی ہے سجن پور جو ماضی بعید میں ایک آباد اور گنجان اراضی تھا اس اراضی تک پانی اُس زمانے میں کیسے پونچایا یہ اُس زمانے کے لوگوں کی جانفشانی تھی جنکی محنت سے گزشتہ دہائیوں تک یہ تمام اراضی آباد تھا لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث غاسنگ نالے میں پانی کی مقدار کم ہوگئی اور یہ تمام اراضی بنجر بن گئی ۔مگر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اس زمین کو آباد کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی کیونکہ بلکل اس رقبہ جات کے عقب سے دریا سند ھ گزرتا ہے اور بہت کم لاگت کے ساتھ اس غیر آباد اراضی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے مگر بات وہی کون کرے یہ کام؟ نمائندے کو انفرادی ترقی سے علاقے کا ووٹ مل جاتا ہے تو کیوں یہ لوگ اجتماعی ترقی کے بارے میں سوچے گا؟۔ یوں اس معاشرتی پسماندگی میں صرف سرکار کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں معاشرے کے لوگ بھی اپنی پسماندگی میں برابر کا شریک ہے جب تک معاشرے کے لوگوں میں اس حوالے سے شعور نہیں آتے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ بلکل یہی صور ت حال آخونپہ کا بھی ہے جہاں دریا سندھ کی کٹائی کے سبب زمین بلکل ختم ہو چکی ہے لیکن نئی آباد کااری کیلئے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا جارہا جو کہ منتخب نمائندوں اور اسکے کارندوں کے منہ پرطمانچہ ہے۔اب اگر ہم اس حلقے کے آخری حدود موضع منٹھوکھا کی بات کریں تو یہ وادی سیاحت کے حوالے سے ایک الگ شناخت رکھتی ہے یہاں سیاحت کے کثیرمواقع موجود ہے لیکن عدم سہولیات کے سبب سیزن میں توقع سے ذیادہ سیاحوں کی داخلے سے مقامی افراد کیلئے تکلیف اور ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کے ساتھ منٹھوکھا ندی کی پانی بھی مضر صحت بنتی جارہی ہے مگر اس طرف حکومت کا توجہ دلانے والا کوئی نہیں ۔ 2008 میں یہاں محترم شیخ محسن علی نجفی صاحب قبلہ کی کوششوں سے بالائی میدان کو مقامی لوگوں کی فلاح کیلئے آباد کرنے کے حوالے سے پیش رفت ہوئی تھی اگر یہ پروجیکٹ کامیاب ہوتا تو اس علاقے کے لوگوں کو اگلے سو سال کیلئے زرعی اراضی دستیاب ہونا تھا لیکن بات وہی لاشعور قوم میں جب بے ضمیر اورقوم فروش مقامی لیڈر ہوتے ہیں تو قومیں ترقی کرنے کے بجائے زوال کی طرف جاتے ہیں اس معاملے میں بھی کچھ مفاد پرستوں نے اجتماعی مفاد کو ذاتی عناد پر قربان کرکے اس سونے کی کان کو آباد ہونے نہیں دیا کیونکہ ایسے عناصر کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عوام کو الجھا کر رکھتے ہیں اور یہ لوگ آس پاس کے ارضی پر قابض ہوتے رہے ہیں۔لہذا اس علاقائی پسماندگی کے حوالے سے اگر آج بھی غور فکر نہیں کیا گیا تو مسقبل قریب میں یہاں پسماندگی اور بڑے گی غربت میں اور اضافہ ہوگا کیونکہ اس پورے علاقے میں زمینیں سکڑتی جارہی ہے اور آبادی میں توقع سے ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن معاشرے میں اجتماعی فلاحی حوالے سے کوئی اقدام اُٹھانے والا نہیں جو کہ پست قوموں کی علامت ہے۔اسی طرح ہم اس پورے علاقے میں تعلیم صحت اور معاشرتی ترقی اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور یہاں پر موجود قدرتی ذخائر پر بحث کریں توایک طویلکہانی ہے جوکہ کالم کی وسعت اشاعت کو مدنظر رکھتے شامل نہیں کیا گیاآنے والے وقتوں میں اس حوالے سے مزید کوشش کی جائے گی۔ان تمام صورت اور پسماندگی کے بعد عوام کو اپنا ضمیر جھنجوڑنے کی ضرورت کہ ان تمام مسائل کے بعد آنے والے الیکشن عوام اپنے بہتر مستقبل کی شرط پر ووٹ دیتا ہے یا حسب سابق چند عناصر کی مفادات کیلئے ووٹ استعمال کرتے ہیں فیصلہ عوام کاہے ۔(اس کالم کو لکھنے کیلئے تمام مذکورہ علاقوں سے انفرادی طور پر معلومات اکھٹا کیا)