کالمز

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور پاکستانیت

محترم قارئین اسی عنوان سے ایک خاتون کالم نگارکی تحریر کی ہوئی ایک مضمون سوشل میڈیا کی وساطت سے پڑھنے کا موقع ملا۔مذکورہ کالم کو پڑھنے کے بعد خطے تمام اہل قلم برادری میں اشتعال پایا جاتا ہے لہذا سوچا کہ کم علمی کے باوجود اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے قلم اُٹھانے کی جسارت کروں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ موصوفہ خطے کی تاریخ سے نابلدہو. بس سکردو آمد اور لوگوں کی خوش آمد کی خوشی میں شائد کچھ لکھ کرخطے سے ہمدردی کا اظہار کیا ہو۔

قارئین کو شائد یاد ہوماضی قریب میں بھی ایک صاحب جو لاہور سے کسی پروگرام میں شرکت کیلئے سکردو تشریف لائے تھے اور جاتے جاتے انہوں نے بھی کچھ ایسے ہی من گھڑٹ کہانی لکھ کر چھپوایا تھا راقم نے انہیں بھی ایک جوابی کالم لکھا تھاجسے قارئین نے پسند کیا۔آج ایک اور مہمان خاتون نے تاریخ سے لاعلمی کے باجود کچھ گلگت بلتستان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی کوشش کی جس کیلئے ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہئے البتہ ہماری تاریخ کو مروڑ کر پیش کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں کیونکہ گلگت بلتستان پہلے ہی کئی دعوئے داروں کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں ایسے میں ماحول میں اس طرح کے کالم کا لکھنا یقیناًہمارے لئے تکلیف کا مقام ہے۔

یہاں قارئین کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ہمارے خطے بالخصوص بلتستان کا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کوئی وفاقی بھی وزیرسیر سپاٹے کی غرض سے آکر عوام کو آئینی حقوق دلانے کا وعدہ کریں توبھی ہمارے عوام بھنگڑے ڈالتے ہیں اسی طرح دوسرے فیلڈ کے خواتین و حضرات جب یہاں سیر وتفریح کے غرض سے تشریف لاتے ہیں تو وہ لوگ بھی اپنے فیلڈ کے مطابق عوام پر تجربہ کرکے چلے جاتے ہیں لیکن جب کوئی اہل قلم اس طرح من گھڑٹ سٹوری معروف اخبارات میں لکھتے ہیں تو قوموں کی تاریخ کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔

مذکورہ کالم کی ابتداء میں ہی مصوفہ نے آذادی گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک نئی تاریخ ایجاد کی جو آج تک ہمیں بھی معلوم نہ تھا کیونکہ ہماری تاریخ کے مطابق یکم نومبر کو گلگت آذاد ہوا اور 15اگست 1948کو بلتستان نے ڈوگروں سے آذادی حاصل کی تھی لیکن یہاں کے عوام یکم نومبر اور 15اگست کے دنوں میں اپنے غازیوں اور شہیدوں کو یاد کرتے ہیں. جنکی لازوال قربانیوں کی وجہ سے 28ہزار مربع میل کو ڈوگرہ حکومت سے آذادی دلا کر جنگ آذادی کے عظیم ہیروکرنل حسن خان کی قیادت میں ایک جمہوری ریاست کی بنیاد رکھی لیکن پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور مقامی غداروں نے ملکر اس ریاست کے ساتھ جو سازش ا لحاق کے نام پر کیا وہ ایک الگ موضوع بحث ہے۔

my Logoمیڈم مزیدلکھتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر پاکستان میں شامل ہوگیے تھے. کاش کوئی محترمہ کو کرنل حسن خان مرحوم کا وہ جملہ یاد دلاتے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ہمارے خطے کے ساتھ یہ سب کچھ ہونے والا ہے تو کبھی بھی برٹش آرمی سے بغاوت نہیں کرتا، کاش محترمہ کرنل حسن خان کی زندگی کے کچھ صفحات پڑھ لیتی شائد انہیں معلوم ہوجاتا کہُ انہیں کس جرم میں اڈیالہ جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھی.عرض یہ ہے کہ انہوں نے بطور ریاستی کمانڈر آذاد ریاست کے ساتھ ہونے والی جعلی الحاق کے خلاف آواز بلند کیا تھا۔

مزیدفرماتی ہے کہ یہاں کے99.9فیصد لوگ پاکستان سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں لہذاگزارش ہے کہ سمجھنے سے کچھ نہیں ہوتا اصل مسلہ قبول کرنے کا ہے. پھر بین الاقوامی قوانین کو بھی مدنظر رکھنا ہے ۔لیکن ہمیں فخر ہے کہ ہمارے لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ورنہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ قانونی طریقے سے پاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں سے جناح پور، سندھو دیش، گریٹ پنجاب اورآذاد بلوچستان کے نعرے بلند ہورہے ہیں لیکن ہم نے تمام تر مظالم کے باوجود کارگل کے پہاڑوں سے لیکر سیاچن کی بلندیوں تک پاکستان کی حفاظت کی جو کہ معاشرتی تربیت کا نتیجہ ہے نہ ہماری کمزروری یا بزدلی۔ہمارے لوگوں نے ماونٹ ایورسٹ سے لیکر کے ٹو تک پاکستان کا نام بلند کیا لیکن ہمارے حصے میں پھر وہی متنازعہ کا لاکٹ ہی آجاتا ہے۔یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہاں سو فیصد لوگ اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہاں سے ابھرتی ہوئی انقلابی تحریکیں تعلیم یافتہ طبقے کودعوت فکر دے رہی ہیں، اس کے علاوہ یہاں ایسے بھی فعال تنظیمیں متحرک ہے جو آج بھی الگ ریاست کی بحالی کیلئے ایک منظم کوشش کررہے ہیں۔

محترمہ مزید فرماتی ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے گھروں پر پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں بلکل اس بات کا بھی ہمیں فخر ہے کہ ہمارا شمار پاکستان کا جھنڈا جلانے والے آئینی صوبوں میں نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں ثمر کیا ملا؟ کیا ہم ایک قانونی پاکستانی بن پائے؟کیا ہمارے عوام کی ضروریات کو پاکستانی حکمرانوں نے محسوس کرکے محبت کے عوض میں پورا کیا؟ کیا یہاں پاکستان سے الفت کی بناء پر بین الاقوامی معیار کا کوئی تعلیمی ادارہ قائم ہوا؟ کیا یہاں پر موجود منرل کو بروئے کار لانے کیلئے کوئی کارخانہ لگانے کی توفیق ہوئی ؟ بلکل نہیں. پاکستان سے محبت کے صلے میں 1988میں ضیاالحق کے حکم پر یہاں لشکر کشی کی گئی، محبت کے صلے میں ضیاالحق نے اپنے حواریوں کے ذریعے یہاں فرقہ واریت کی بنیاد ڈالی ،محبت ہی کی وجہ سے یہاں کے اکثریتی طبقے کو چُن چُن کر قتل کیا لیکن نہ قاتل پکڑے گئے نہ مقتولین کی دار رسی ہوئی۔البتہ ایک بات ضرور ہے کہ جب بھی یہاں کے وسائل ہتیانے کی بات آتی ہے تو گلگت بلتستان فورا پاکستان کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن عوامی مسائل کی حل کیلئے آج بھی ہم متنازعہ خطے میں رہتے ہیں۔

مزید انکے کالم پر روشنی ڈالیں توکہتی ہے کہ بھارت اس خطے کو جموں کشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں شائد اُنہیں یہ بات بھی معلوم نہیں کہ لوک سبھا میں آج بھی گلگت بلتستان کیلئے سیٹیں خالی رکھی ہوئی ہیں لیکن پاکستان کی طرف دیکھیں تو ایک غیر منتخب اور غیر مقامی شخص کو وزیر بنا کر خطے پر مسلط کیا ہوا ہے تاکہ دنیا کو باور کراسکے کہ یہاں ہماری حاکمیت ہے ہم نے پیکج کے نام یہاں ایک سسٹم دیا ہوا ہے جسے مقامی حکمران صوبے کا نام دیکر خوش ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہیں. انہیں خطے کے مستقبل سے کوئی سروکارنہیں بس انکی مراعات میں اضافہ ہوتے رہنا چاہئے. باقی آپ جو نعرہ لگوانا چاہے لگوا دو عوام کو تیار کر لیتے ہیں۔

جہاں تک جموں کشمیر کے حصے کی بات ہے یہ بات واضح ہے اور دنیا جانتی ہے جنگ آذادی سے پہلے جموں کشمیر میں ڈوگروں کی حکومت تھی لیکن یہاں کے عوام نے جیسے اوپر ذکر کیا ڈوگروں سے بغاوت کرکے آذادی حاصل کرکے ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی لہذا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان آج بھی جموں کشمیر کا حصہ ہے وہ لوگ دراصل جنگ آزادی گلگت بلتستان کے دشمن اور الحاق کے سازشی ٹولے کی باقیات ہیں کیونکہ کچھ لوگوں نے اُس وقت بھی صرف عقائد کے اختلاف کی بنیاد پر سازشی عناصر کا ساتھ دیکرخطے کو اس دھانے پر پہنچایا تھاجو کہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔

باقی محترمہ نے جو یہاں کے مسائل ضروریات اور وسائل کو بروئے کار لانے کے حوالے سے جو نشاندہی کی ہے اسکی ہم قدر کرتے ہیں کیونکہ پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کبھی بھی یہاں کے مسائل کے حوالے سے کوئی ذکر تک بھی نہیں ہوتا۔اسی طرح ہم اگر خطے میں موجود پرنٹ میڈیا کی بات کریں توہمارے کچھ فارن اسپانسرڈپرنٹ میڈیا قومی مفاد سے ذیادہ ادارے کی مفادکو ترجیح دیتے ہوئے صرف مخالف سیاسی پارٹیوں کی کردار کشی اور بلیک میلنگ کے کاروبارکے ذریعے آمدنی میں اضافہ کرنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں.

ایسے مخصوص اخبارات آج بھی خطے سے تعلق رکھنے والے اہل قلم حضرات کو کم اور غیر مقامی مسائل پر لکھنے والوں کو ذیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ہمارے کچھ اہل قلم دوستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسطرح کے مخصوص اخبارات میں عوامی مسائل کے حوالے لکھے گئے کالم چھپوانے کیلئے بھی دفتری سفارش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایسے ماحول میں ملکی پرنٹ میڈیا میں گلگت بلتستان کی ترجمانی کرنے والوں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور محترمہ ڈاکٹر صغرا صدف صا حبہ سے توقع کرتے ہیں کہ مذکورہ کالم کے حوالے سے ہمارے اہل قلم کے خدشات کو دورکریںگی اور یہ بھی امید کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور عوامی مسائل کے حل کیلئے آئندہ بھی کردار اداکرتی رہیں گی۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button