اسلامی طرز زندگی اور سیاست
پولیٹکل سائنس میں سیاست کی تعریف بڑا پیچیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے اور آج تک علم سیاسیات اور ماہرین علم سیاست کی کوئی جامع تعریف پیش کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اور اب تک سیاسیات کے ماہرین نے سیاست کی جتنی تعریفیں پیش کی ہے کسی ایک پر اجماع حاصل نہیں ہوسکاہے۔اور معلوم نہیں آئندہ یہ لوگ کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔لیکن ہم اسلام کی مادری زبان یعنی عربی زبان کی رو سے اگرسیاست کے لفظی معنی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے لفظ سیاست عربی میں حکومت کرنے کے مصلحت کو پیش نظررکھ کر امور کو انجام دینے وغیرہ کے معنی ٰ میں استعمال ہوا ہے۔اس لفظ کے اصطلاحی معنیٰ یوں ہوا ہے جیسے مخلوق خدا کو راہ نجات کی طرف رہنمائی کرنا اور لوگوں کو اس چیز کی طرف راہنمائی کرنا جو ان کیلئے مفید ہو۔یایہ کہ سیاست یہ ہے کہ سماج اور معاشرے کے تمام ایجاد ات اور اس کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس کی صحیح راہ پر ہدایت کی جائے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان دانشمند وں کے ان واضح نظریات کے باؤجود جیسے کہ اس کائنات ارضی میں روز اول سے ہی باطل کی یہ کوشش رہی ہے کہ حق کا بول بال نہ ہووہ اپنی ساری توانائیوں جبر و تشدد اور مکروفریب کے ذریعے اہل حق پر حملہ آور ہوا ہے۔اور انہوں نے اپنے زعم باطل میں تصور کیا ہے کہ حق کا بول بالا دنیا سے ختم ہوا اور نظام ظلم اپنی تمام تر خوفناکیوں کیساتھ دنیا پر حاکم ہوجائے۔اسی تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اہل غرب اور ان کے مشرقی گماشتوں نے مل کر دنیا والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی طرززندگی اسلامی ثقافت اپنے ما قبل ثقافتوں بالخصوص یونان و روم کی دنیا پر ست ثقافتوں سے ماخوذہے۔جبکہ اس مضحکہ آمیز نظریہ کے باطل ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
اسلامی طرز زندگی میں انسان کاعقیدہ ہوتا ہے انسان عام مخلوقات کی طرح نہیں بلکہ یہ زمین پر خدا کا نمائندہ ہے اور رب العالمین نے دنیا اور اس میں موجود اسکی تمام طاقتوں کو اس کیلئے مسخرکیا ہے ۔فقط خدا کے سامنے محکوم بنا کر بھیجا ہے۔اسے تمام مخلوقات پر عزت و شرف حاصل ہے مگر وہ عزت کا مستحق اس وقت ہوسکتا ہے جب انسان اپنے خالق کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کا اتباع کریں اور یہ کہ انسان دنیا کی زندگی میں جس طرح صحیح یا غلط عمل کرے گا اس پر وہ اچھے یا برے نتائج مرتب ہونگے جنہیں انسان ابدی زندگی میں دیکھے گا لہذا دنیوی زندگی کی اس تھوڑی سی مدت میں انسان کو اپنی شخصی ذمہ داری اور شمولیت کا ہر لمحہ احساس رہنا چاہئے اور کبھی بھی اس سے غافل نہ ہونا چاہئے کہ جو چیز یں رب العالمین نے اپنے نائب کی حیثیت سے انسان کی امانت میں دی ہیں ان سب کا پورا پورا حساب لیاجائے گا۔
یقیناًجو یہ عقیدہ نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور اس عقیدہ کا پابند انسان اپنی معاشرتی زندگی میں ان عقائد کے پیش نظر جب زندگی گزارے گا تو حقوق اللہ ،حقوق العباد،والدیں کے حقوق ،رشتہ داروں کے حقوق،ہمسائیوں کے حقوق،دوستوں کے حقوق ،اساتذہ کے حقوق،شاگردوں کے حقوق،ہم شہریوں کے حقوق سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔
اور وہ قدم قدم پر محتاط رہے گا اورکوشش کریگا ان تمام وظائف کو انجام دینے کی جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے۔اور جب انسان اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے وظائف پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گا تو وہ معاشرہ اسلامی طرز زندگی کا آئینہ ہوگا۔اگر ہم بطور خاص گلگت بلتستان کی بات کریں ان علاقوں میں ملک کے دوسرے علاقوں کے بر خلاف سو فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے اور وہ بھی سارے پکے اور خالص مسلمان ،اسلامی تہذیب کے پابند نظر آتے ہیں۔لیکن یہاں کی سیاست سیاستدان اور سیاسی حلقوں میں جب سیاسی عمل کے دوران اگر دیکھا جائے تو اسلام اور اسلامی طرز زندگی کے اصول و دوردور تک نظر نہیں آتے۔
خاص طور پر ہمارے حقوق سے یکسر محروم یہ علاقہ چند عشروں سے ملکی سیای پارٹیوں کیلئے بتدریج اہمیت کے حامل ہوتا چلا آرہا ہے۔ہر بڑی ،چھوٹی پارٹی لوکل انتخابات کے آس پاس علاقے کے مکینوں کو بڑے بڑے وعدوں سے نوازتی ہے اور حسب عادت الیکشن کے فوراََ بعد انکا حافظہ فارمیٹ ہوجاتا ہے۔اور آزادی کے 66سال بعد بھی آج تک ان علاقوں میں کوئی قابل قدر ترقیاتی کام نہیں ہوا اکثر لوگ آج بھی بجلی،پینے کا صاف پانی اور اس جیسی دوسری ابتدائی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔اور ابھی بھی صورت کچھ بہتر ہوتی نظر نہیں آتی۔ انتظامی امور میں بس لفظوں کا ہیر پھیرکے علاوہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا اور یہ علاقہ آج بھی ایک وفاقی وزیر جس کاان ا علاقوں سے دور دور تک کا واسطہ نہیں کے رحم و کرم پر نظر آتا ہے۔اور بحرحال جو سیاست ان علاقوں میں نظر آتی ہے سیاست کہنے کے قابل نہیں میری نظر میں جہاں آزادی عمل اور آزادی بیان نہ ہو وہاں پر سیاست کا ہونا نامحال ہے۔عملاََ کوئی بھی سیاست آزادی کے بغیر پنپ نہیں سکتی اور آزادی سے مراد وہ آزادی نہیں جو فکری فطور والے افراد جسکا تصور کرتے ہیں۔حتیٰ اس آزادی جس کا خیال ایسے افراد کرتے ہیں۔لبرل سے لبرل نظام میں بھی ممکن نہیں۔یہاں آزادی سے مراد مشخص ہے مذہب ، قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی رائے کا برملا اظہار کرنا اور جس نہج اور عقیدہ پر چاہے زندگی گزارنا ۔ لیکن جو کچھ یہاں پر ہوتا ہے ا س کے بارے میں فقط یہی کہوں گا۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ مختصر یہ کہ عوامی سطح پر آج بھی ہمارے بہت سارے علاقوں میں مختلف طریقوں سے آزادی بیاں کا خون کیا جاتا ہے۔عملی طور پرعموم مسلمانوں کی بدبختی یہ ہے کہ ان کے ہاں اعتدال نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔حالانکہ اسلامی تعلیمات میں اس بات پر بہت تاکید کی گئی ہے۔یہاں یا حد درجہ افراط ہے وہ آج کل القاعد ہ اور طالبان کی سیاست ہے کہ حقیقی اور روح اسلام اور مذہب سے جسکا کوئی واسطہ اور رابطہ نہیں بلکہ انکی سیاست استعما ری قوتوں کیلئے ان کے عزائم کوعملی جامعہ پہنانے کیلئے راہ ہموار کرنے والی سیاست ہے۔اور بہت سارے مسلمان ممالک خاص کر وطن عزیز پاکستان اس شر سے دامن گیر ہے۔جہاں قتل غارتگری اور معصوم جانوں کے بے دریغ قربانی کا سلسلہ اسلام کے نام پر جاری ہے۔اور دوسری طرف لبرل سیاسی پارٹیاں میں جو غرب کی تقلید کرتے نہیں تھکتی جبکہ یہ بات واضح اور روشن ہے ایک مسلمان کی طرز زندگی غربی طر زذندگی اور ثقافت سے میل نہیں کھاتی۔ان پارٹیوں کے مرہون منت ہے کہ معاشرے میں مختلف طریقوں سے خاص طور پر بے لگام میڈیا کے ذریعہ فحاشی عریانیت بے راہ روی جیسی کینسر نما بیماریاں معاشرے میں خاص کر نسل نو میں عام ہورہی ہیں۔اور اسکے بحرحال منفی نتائج معاشرے کے مختلف طبقات میں مختلف طریقوں سے سامنے آرہے ہیں۔
ان دونوں انحرافی پہلوؤں میں ملکی سیاست ،سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کا اہم رول رہا ہے۔اور یہ سب بلا شبہ سیاستدانوں کی غلطیوں ناکامیوں اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے اور عام طور پر سیاستدان اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کیلئے مارشل لاء کو ڈھال بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔جبکہ یہ خود ایک بڑی دلیل انکی ناکامی کا نتیجہ ہے۔اور اگر ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے جہاں سیاست پر شب و خون مارا گیا ہے تو یہ عمل خود سیاست دانوں کی بالکل ناکامی کا نتیجہ رہاہے۔ہر میدان میں قدرتی وسائل سے مالا مال وطن عزیز ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن ہے تعلیم،اقتصاد،امن عامہ،مواصلات،سیاست خارجہ،ٹورزم زبوں حالی کے شکار ہیں۔آبی اور معدنی ذخائررکھنے والے خطے میں توانائی کی شدید کمی سے دوچار ہونا اور 90فیصد عوام کا گرمی سے بلبلانا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے سیاستدانوں کے شرم سے ڈوب مرنے کیلئے کافی ہے۔لیکن بقول غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی۔بلکہ اس نام کی کوئی چیز ان میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ان حالات میں اب یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آنی چاہئے کہ زندگی کے تمام تر تصورات میں صرف اسلام ہی کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو فطرت اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔اور جس میں دنیا اور انسان کے تعلق کو ٹھیک ٹھاک ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو دنیا کوئی ترک اور نفرت کے قابل چیز ہے اور نہ ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ ہو اور اس کی لذتوں میں گم ہوجائے اسلامی طرز زندگی کی رو سے نہ اس دنیا میں کلی طور پر انہماک درست ہے۔نہ کلی طور پر اس سے اجتناب نہ انسان اتنا حقیر ہے کہ دنیا کی قربت اس کی مسجود بن جائے اور نہ اتنا غالب و قاہر کہ خود دنیا کی ہر شے کا مسجود بن جائے نہ وہ اتنا بے بس ہے کہ اس کا ذاتی ارادہ کوئی چیز ہی نہ ہو اور نہ اتنا طاقتور کہ بس اس کا ارادہ ہی سب کچھ ہو۔نہ وہ عالم ہستی کا مطلق العنان فرمان روا ہے نہ کڑوڑوں آقاؤں کا بیچارہ غلام ،حقیقت جو کچھ ہے وہ ان مختلف اطراف و حالات کے درمیان ایک متوسط حالت ہے جہاں پر فطرت اور عقل سلیم ہماری رہنمائی کرتی ہے۔لیکن اسلام اس سے آگے بڑھتا ہے اور تمام امور کا ٹھیک ٹھیک تعین کرتا ہے۔اسلام یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی مرتبہ کیا ہے۔دنیااور اس کے درمیان کس نوع کا تعلق ہے اس کا دوسرے افراد کیساتھ مختلف حوالوں اور نسبتوں سے کیا فریضہ ہے ان چیزوں کو سمجھنے کیلئے علم و آگاہی فکرونظر بصیرت اور حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔اورمذکورہ خرابیوں میں ایک وجہ وطن عزیز کے سیاستدانوں کی جہالت ہے اور اسلام جہالت کا سخت اسی لئے مخالف ہے ایک تو وہ جاہل سیاست دان ہیں جو ان پڑھ جاہل ہیں اور ان سے بڑے وہ جاہل ہیں جو پڑھے لکھے جاہل ہیں۔وہ ڈگریاں تو رکھتے ہیں لیکن وہ مسائل کو درک نہیں کرسکتے نہیں سمجھتے یا سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔حتیٰ دھونس دھمکی دھاندلی جھوٹ مکروفریب سے کام لینے کو وہ ہوشیاری اور کامیابی تصور کرتے ہیں۔ایسے لوگ کیسے جاہل نہیں ہوسکتے جو آج بھی اس ترقیافتہ دور (گلوبل ویلیج)میں رہ کر اپنے مخالف ملازموں کے ٹرانسفر کرانے کسی معمولی تنازعہ میں فریق بننے اپنی پارٹی کے مجرموں کو معصوم اور مخالف معصوم لوگوں کو مجرم ثابت کرنے کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔اور ایسے افراد سے بڑھ کر کوئی جاہل نہیں ہوسکتا۔اسے افراد نہ سیاست سے واقفیت رکھتے ہیں نہ اسلامیت سے ان کا دور دور کا واسطہ ہے۔ملک کی ترقی سے ان کو سروکار ہے نہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے،نہ احساس محرومی اور ان کے سایہ تلے مختلف معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا فروغ ان کیلئے کوئی مسئلہ ہے ،انہیں تعلیمی سہولیات کی کمی،تعلیمی کیفیت کی زبوں حالی بے روزگاری ،پانی،بجلی اور دوسرے ضروریات زندگی کی کمی،سڑکوں کی خستہ حالی ،تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی ،ہسپتالوں کی کمی اور موجود ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹاف اور ضروری اوزارواشیاء کی کمی اور ایسے سینکڑوں دوسرے اہم اور حیاتی مسائل کی کوئی پروا ہ نہیں معاشرے کی فکری علمی،ادبی ترقی دور کی بات ہے۔
لیکن ایسا بھی نہیں یہ لوگ بالکل بیکار ہوں کچھ ان کی مصروفیات اور فعالیت کا تذکرہ نہ کرنا ناانصافی والی بات ہوگی۔یہ لوگ دن رات اس کو شش میں ضرور مصروف رہتے ہیں اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی شاہانہ بسر ہو۔دفاتراور زرق برق والی نئی گاڑیوں کا حصول ،شہروں میں ذاتی رہائشی منصوبے،ذاتی مکانات کے پراجیکٹس حکومتوں میں من پسند وزارتوں کا حصول اپنی اولاد نرینہ اور غیر نرینہ کیلئے مناسب نوکریوں کا انتظام اور دوسرے مرحلے میں اپنے رشتہ داروں نیز پارٹی کے وہ خاص کارکن جن کو ان سیاستدانوں کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہوں ان کیلئے نوکری کا انتظام کرنا یا کوئی امرار معاش کا انتظام کرنا وغیرہ ۔ ان سیاسی مصروفیات کے علاوہ انصاف کیساتھ کہنا پڑتا ہے یہ لوگ اسلامی طرز زندگی سے بھی نابلد نہیں ہیں جیسے مثال کے طور پر شلوار قمیض پہن کر عید کی نمازوں میں شریک ہونا کبھی کبھار نماز جمعہ جماعت میں حاضری اور نماز جنازوں میں شریک ہوکر صف اول میں رہنا دیگر مذہبی رسومات میں کبھی کبھار شرکت خاص خاص مریضوں کی عیادت وغیرہ وغیرہ البتہ ان امور کیلئے ایک لازمی شرط ہے وہ یہ کہ یہ حضرات ملکی یا غیر ملکی دوروں پر تشریف نہ لے گئے ہوں ورنہ ان کی ایک بڑی مصروفیات دورے وغیرہ ہوتے ہیں جن میں سے اکثر سیروتفریح ہوا کرتے ہیں۔یہ ایک مختصر خاکہ تھا اکثر و بیشتر ملکی سیاستدانوں کا اور اگر کسی کو ان باتوں سے اختلاف ہو اور اگر سمجھتا ہو کہ ان کا نمائندہ یا علاقے کا سیا سی فرد ان اوصاف سے عاری اور واقعتاََ عوامی دکھ درد رکھنے والا ہو تو میں دست بستہ ایسے افراد سے معذرت خواہ ہوں اور میری گزارش ہے کہ ایسے سیاستدان موجود ہوں تو انکی قدر کریں اور کسی طور پر بھی انکو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور آئندہ بھی موقع آئے تو ان کو رائے دینے میں کوئی تامل نہ کریں یہ ایک عمومی تجزیہ ہے اور ان باتوں کا ہر فرد پر صدق آنا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔اور ایک مسلم بات ہے ہردور میں سیاست کے میدان ایسے افراد بھی رہے ہیں اور آج بھی ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔جنہوں نے عوام کی خدمت کی ہے اور اپنی ذات کیلئے کچھ بھی نہیں کیا اور آج ضرورت اس بات کی ہے اسلامی معاشرے کے افراد ہونے کے ناطے ہم ایسے افراد کا انتخاب کرنے کی کوشش کریں جو واقعاََ عوامی ہوں۔عوامی دکھ درد کو سمجھتے ہوں اسلامی اقتدار کی پابندہوں ،دین ستیز نہ ہوں۔فہم ادراک رکھنے والے ہوں خودغرض ،شہرت طلب،منفعت طلب،جاہل،ڈرپوک نہ ہوں۔اور اگر ہم مختلف علاقائی، لسانی،مذہبی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر معیار کی بنیاد اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر افراد کا انتخاب کرتے ہیں تو یقیناََ وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی اسلامی طرز زندگی کا رواج عام ہو اور جن محرومیوں اورمشکلات ومسائل سے ہم دوچار ہیں وہ بالکل ختم یا کم سے کم ہوجائیں۔اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا سکھ چین کیساتھ زندگی بسر کرسکیں،آزادی کا عمل اور آزادی گفتار اخلاق کی حدود میں رہ کر پروان چڑھے ہر ایک کو اس کا جائز حقوق فراہم ہوں ایسا ہونا عین ممکن ہے اگر معاشرے کے ہر طبقے کے افراد ملکر کوشش کریں اور جو لوگ ایسی زندگی کو ناممکن سمجھتے ہیں مجھے انکی ذہنی تنگی پر افسوس ہوتا ہے جبکہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور آج کی دنیا میں بھی اسکی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔جہاں باہمی اختلافات کو بھلا کر باہمی تعاؤن اور ہمدلی سے قوموں نے ترقی کے مدارج کس جلدی سے طے کی ہیں۔اور آج ترقی کی بلندیوں کوچھو رہی ہیں۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اور اگر ہم اسلامی اصولوں پر کاربند ہو اسلامی طرز زندگی اپناتے ہوئے علم کا اسلحہ ہاتھوں میں تھام کر اخوت و برادری،ہمدلی،محبت اور وحدت کی فضاء کو معاشرے پر حاکم کرنے بعد اگر سیاسی میدان میں ترقی کیلئے کوشش کریں تو وہ ساری چیزیں جو آج ناممکن دکھائی دے رہی ہیں وہ سب ممکن ہوسکے گی۔اور اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں صرف اور صرف اسلامی طرز زندگی کی فراموش شدہ اقدار کو زندہ کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اور جب معاشرہ اس کے پابند ہوگا۔تو معاشرے سے ابھرنے والے سیاستدان بھی ایمان دار ،امانت دار،بے خوف وعدوں کا سچا جیسے اوصاف سے متصف ہونگے تب جاکر اسلامی جمہوریہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا جس کو علامہ نے برسوں قبل دیکھا تھا۔
اسلامی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو