کالمز

گلگت بلتستان اورقدرتی آفات

سانحہ عطاآباد جس دن وقوع پزیر ہوا وہ دن علاقے کے مکینوں کیلئے قیامت سے کم نہیں تھا. ملبے تلے دبے پیاروں کی تلاش میں تڑپتے لوگ ،خوف و ہراس میں مبتلا بوڈھے، بچے اور خواتین ، موت اور زندگی کا ایک ایسا کھیل جس نے کچھ ہی لمحات میں کئی زندہ انسانوں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا ۔یہ کوئی اچانک رونما ہونے والی واقعہ نہیں تھا بلکہ اسکے اثار کئی سالوں سے واضع طور پر دکھائی دے رہے تھے۔

اس قدرتی آفت نے جہاں کئی لوگوں کی جان لے لی وہاں ہزاروں لوگوں کو بے گھر بھی کیا اور آئین آباد،ششکٹ،گلمت اور حسنی کے خوبصورت گاوٗں پانی تلے دفن ہونے لگے۔گوجال کا زمینی رابطہ منقظع ہوا اور آج تک گوجال کے عوام مشکلات کا شکار ہیں۔

Najmiآج ایک بار پھر ایک ایسا ہی خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے عطاآباد کے باسیوں کی طرح میاچھر اور پھکر کے عوام بلخصوص اور مرکزی ہنزہ اور نگر کے عوام بلعموم خوف اور بے یقینی کا شکارہے ۔

عطاآباد کی ہی طرح میاچھر نگر میں بھی خطرے کی گھنٹی 2010سے مسلسل بج رہی ہے. کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں سنٹرل ہنزہ کے کئی گاوٗں اور نگر ساس ویلی کو صفحہ ہستی سے مٹا کرایک نیا جھیل جنم لے سکتا ہے جس کے نتیجے میں کتنے لوگ متاثرہونگے اس کے بارے میں سوچ کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ عطا آباد جھیل کا بنداندازوں کے برعکس مضبوط ثابت ہوا جس کی وجہ سے نشینی علاقے بہت بڑی تباہی سے بچ گئے. اگر خدانخواستہ دریائے ہنزہ کا بہاوٗمیاچھر یا پھکر میں لینڈ سلائیڈنگ سے رک جاتا ہے اور پھر وسیع علاقے میں پانی جمع ہوجانے کے بعد بند ٹوٹ جاتا ہے تو پھر اس صورت میں جو تباہی نشینی علاقوں میں ہوگی وہ آجکل پاکستان کے دریاوٗں میں آئے سیلابوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عقل مند لوگ اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے عطاآباد سے کیا سیکھا عطا آباد کے متاثرین کس حال میں ہیں اور گوجال کے عوام کن مشکلات کا شکار ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہے۔اس سانحے کے بعد پیدا ہونے ناخوشگوار واقعات،بے گناہ متاثرین کا قتل اور پھر اسکے بعد سیاسی معاشی اور کاروباری شعبے پر پڑنے والے برے اثرات پورا گلگت بلتستان پہ مرتب ہوئے ہیں ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے علاقے کی جغرافیائی اور ارضیاتی خطرات کو سمجھنے ہونگے اور ماہرین کی رائے کو اہمیت دینی ہوگی

ارضیات کے ماہرین واضع طور پر اس بات سے متفق ہیں کہ یہ علاقے قدرتی آفات کے زد میں ہیں ماہرین کی یہ پیشن گوئیاں صرف ہنزہ اور نگر کے عوام کیلئے ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان حکومت کیلئے بھی ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہوسکتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ماہرین کے زریعے علاقے کی مکمل جیولوجیکل سروے کروالیں اور 2010میں ہونے والی سروے کے نتیجے میں جو سفارشات حکومت سے کی گئی ہے ان پر فوری عمل کرے پھکر اور میاچھر کے رہائشیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کریں تاکہ کسی بھی جانی نقصان سے بچا جاسکے۔

ماہرین کے مدد سے کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس سے شدید لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں بھی دریائے ہنزہ کے بہاوٗ میں رکاوٹ پیدا نہ ہومتاثرہ علاقے میں کنٹرول سنٹر قائم کرکے حالات پر چوبیس گھنٹے نظر رکھا جائے ۔

اگر عطا آباد کی طرح یہاں پر بھی حکومت ناکام ہوئی تو پھر شاید گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ جنم لے گا.

عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ خوف وہراس میں مبتلا ہوںے کی بجائے حوصلے اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ کریں. ہم ایک ایسے خطے میں آباد ہیں جہاں پر کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے قدرتی آفت کا سامنا ہوسکتا ہے لہذا ہر گاوٗں کے سطح پر تربیت یافتہ رضا کاروں کی ٹیموں کو تیار کرنے کی ضرورت ہے آخر میں ہم سب کو دعا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی گلگت بلتستان کے ہر گاوں کو کسی قسم کی بھی قدرتی آفات سے محفوظ رکھیں ۔آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button