کالمز

’’لمحہ موجود‘‘

وقت اتنا بے درد بھی کہ ’’بے وقت‘‘کسی کو کچل دے۔کسی کو بے وجہ میلیا میٹ کرے۔کسی کی آرزوں کا خون کرے۔وقت منصف ہے وقت جج ہے وقت ایک پیمانہ ہے ایک ترازو ہے جس میں ہر چیز کو تولہ اور ناپی جاتی ہے۔انسان پیدا ہوتا ہے دنیا میں اس کا پہلا دن ہے اورایک لمحہ دنیا میں اس کے آخری دن کا آئے گا۔بچپن ،لڑکپن ،جوانی،بڑھاپا یہ سب عمر کے موسم ہیں۔بہار،گرما،سرما،خزان ان سب کا پہلا اور آخری لمحہ آتاہے۔سکول میں داخل ہواپہلا لمحہ،سکول سے فارغ ہونے کا آخری لمحہ۔۔۔کالج کا پہلا لمحہ اور پھر کالج کا آخری لمحہ۔۔۔۔یونیورسٹی کا پہلا لمحہ اور پھر یونیورسٹی کا آخری لمحہ۔۔۔۔پھر اعلیٰ زندگی آئے گی ۔۔۔شادی ہوئی نکاح پڑھانے کا پہلا لمحہ اور پھر کسی طرح جدائی کا آخری لمحہ۔۔۔۔اقتدار ملا حلف۔۔۔وفاداری۔۔۔۔کا پہلا لمحہ اور پھر دورانیہ ختم کرنے کا آخری لمحہ۔۔۔اب سوال یہ ہے کہ انسان خصوصی طورپر ہم لوگ پہلے لمحے میں کچھ نہیں کہتے۔مگر آخری لمحے میں وقت کو کوستے رہتے ہیں وقت کو بے درد کہہ کردل کا بھڑاس نکالتے ہیں۔انسان ان دولمحوں کے درمیان اصل میں امتحان میں پڑا رہتا ہے وہ امتحان ہال میں ہوتا ہے وہاں مختلف پرچے حل کرنے ہوتے ہیں۔نوکری،اقتدار ،شادی وغیرہ یہ سب پرچے ہیں۔وقت اس دوران ممتحن کا کام کرتا ہے اس دوران اگر امیدوار ۔۔۔۔امتحان دینے والا ہوش میں رہے تو وہ ضرور ان دو’’لمحوں‘‘کو سوچے گا پہلے ہی لمحے میں اس کو یقین ہونا چاہیئے تھا۔چاہیئے تھا کہ اس کا آخری لمحے ضرور آئے گا۔وہ آخری لمحے کو نہ سوچ کر غلط کیا پچھتائے گا۔۔۔قدرت کی طرف سے اس آخری لمحے کو راز میں رکھنے کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ تیار رہے۔۔۔۔

hayatمگر ہمارے ہاں غافل انسان کی کیفیت ہی الٹی ہے۔بے خبری میں سارے پرچے Missہوتے ہیں۔یہی احساس زمہ داری کا فقدان کہلاتا ہے۔ہمیں نصاب دیا گیا ہے جس میں سب کچھ موجود ہے اپنی طرف سے شامل کرنی کی ضرورت نہیں۔اگر ہم بچے ہیں تب بھی ہمارے لئے اس نصاب میں سب کچھ موجود ہیں اگر ہم باپ ہیں تب بھی۔۔۔ہم نوکر ہیں،آقاہیں غلام ہیں،لیڈر ہیں،افسیر ہیں جو بھی ہیں،ہمارا تعارف ہماری زمہ داری،ہمارے فرائض کی نشاندہی ،اس نصاب میں موجود ہیں۔ہم جس حیثیت میں بھی ہیں اگر ہم ’’لمحہ موجود‘‘کو سوچیں اہمیت دیں تو ہم ایک زندہ قوم بن سکتے ہیں ہمارا المیہ ہے کہ ہم انہی دو لمحات کو اہمیت دیتے ہیں باقی درمیان میں سب بھول جاتے ہیں۔زندہ قومیں لمحوں کا حساب کتاب رکھتی ہیں۔وہ آنے والے لمحوں کو گنتی ہیں ان کی فکر کرتی ہیں ان کا حساب کتاب رکھتی ہیں گذرے لمحے ان کے اسباق ہوتے ہیں۔اس تجربے کی بنیاد پر وہ آگے بڑھتی ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پہ پہلا لمحہ گذرے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ آخری لمحہ آتا ہے۔ہمارے وطن کی تاریخ انہی کوتیاں سے پُر ہے آج ہم جن مصائب سے دوچار ہیں اس میں صرف لمحہ موجود کی قدر نہ کرنے کی سزا ہے۔آج سے دس سال پہلے اگر ہم اس کی قدر کرتے تو آج ہم اندھیروں میں نہ بھٹکتے پھرتے،ہمارے دریاؤں میں طغیانیاں نہ ہوتیں ہم بند باندھ کر ان کو کنٹرول کرچکے ہوتے۔ہماری سرکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتیں ۔ہمارے کارخانے کھڑے نہ رہتے ۔ہماری زمینیں نہ دھک ہورہی ہوتیں۔ہمارامسئلہ یہ ہے کہ اپنے پہلے لمحے میں کسی شعبے کسی کام کسی منصوبے پر نہیں سوچیں گے لمحہ موجود ہمارے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا پھر آخری لمحے پر سب پر سوچیں گے پھر ایک دوسرے کو الزام دیں گے۔قوموں کی زندگی میں لمحہ موجودہی سب کچھ ہے۔اقبال نے اس کی کیا خوبصورت توضیخ کی ہے۔

کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ

بے شک ہم ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنائیں مگر سب کی نظریں مستقبل پر لگی ہوں تو اسی کو سیاست،اسی کو جدوجہد اور خلوص اور ہوشیاری کہتے ہیں۔ملک کا مستقبل آنے والے لمحوں کا تقاضا کرتا ہے۔اس لئے قوم کے ہرفرد کو مستقبل پر نظریں رکھنی ہوتی لمحہ موجود کی قدر کرنی ہوتی ہے اپنے حصے کا کام کرنا ہوتا ہے۔عمارت تعمیر کر نے والے ٹھیکدار کو عمارت کی عمر کی فکر ہونی چاہیئے۔سڑک بنانے والے انجینئر 500سال آگے کی سوچے۔کارخانے لگانے والے کے کارخانے سے ملک کا مستقبل وابستہ ہو۔منصوبے بندکرنے والے اور پالیسی سازوں کی نظریں بہت دور مستقبل پہ ہوں تو ان کا پہلا لمحہ پھر آخری لمحہ اور درمیان کے سارے لمحے قیمتی ہونگے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

  1. بھائی محمد جاوید حیات۔۔بہت خوب لحمہ کی قدر منزلت کا احساس دلانے کا سوچا کہ لحمہ موجود سے کچھ لحمات آپ کے نذر کردوں تاکہ میرے لحمات حسین بن جائیں ۔خدا آپ کے لحموں میں برکت عطا کرے اور ہر لحمہ سالون میں بدل جائے۔۔۔آمین

Back to top button