احترام دل سے نہ ہو تو دیوار ہے
ایم ایم قیزل
جس گھر میں، جس گروہ میں، دوستوں میں ، اداروں میں، آفس میں ، معاشرے میں زندگی کے ہر ہر شعبے میں چاہے وہ نجی ہو یا اجتماعی جہاں کہیں بھی ہو اگر ویاں کوئی محترم بنا چاہے تو سمجھ لینا کہ وہاں محترم اور احترام کرنے والے کے بیچ ایک دیوار کھڑی ہونا شروع ہوا، اور یہ attitude دلوں کے اندر خلا پیدا کرتی ہے قرب ، نزدیکی، محبت ، دوستی، اپنائیت ، اور دلی رشتوں کی جڑوں کو نہ صرف کھوکلا کرتی ہیں بلکہ ان خوبصورت جذبوں کو نفرت، دوری،خاموشی،اور سنجیدگی میں تبدیل کر دیتی ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دلی جذبوں کو دیمک کھا جاتی ہے ،اور انہیں ایک دوسرے کے لئے اجنبی بنا دیتی ہے
ایسی کئی مثالیں آپ کے سامنے ہونگے مثال کے طور گھر میں وہ پیار ،اخلاص، اپناپن، ایک روحانی قربت جو والدہ سے ہوتی ہے وہ والد محترم سے نہیں ہوتا اس کی ایک اہم وجہ شاید والد کا وہ سخت مزاج ہو جس سے بچے بچپن خفا، یا ایک ڈر کا عںصر پایا جاتا ہے یعنی بچے بچپن ہی سے والد کا احترام کو ایک قانون یا اصول سمجھتے ہیں جس سے روگردانی کی صورت میں والد کی عدالت میں پیشی اور سزا ہے ۔ اسلئے بچے والد سے کھل کے نہ کچھ شئیر کرتے ہپں نہ کھل کےان سامنے بیٹھ پاتے ہیں۔ اور نہ ہی اپنے جذبات کا اظہار کھل کر پاتے ہیں جب کہ والدہ کی دھیما اور نرم لہجہ اولاد کو حقیقی محبت کی بندھن سے باندھ دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں والد کو گھر کا سربراہ یا حکمران شمار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے گھر کے دوسرے افراد کا والد کی طرف روایہ قدر مختلف ہوتا ہے۔
اسی طرح آپ لوگوں نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ ایسے ادارے جہاں کام کرنے والے ایک دوسرے پر محترم ٹہرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں نہ دوستانہ ماحول پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ ادارہ لچک دار ہوتا ہے، ہماری ملک میں گورنمنٹ ادارے اس کی ایک مثال ہے ۔۔ جن اداروں میں لوگ اپنے ماتحت subordinates کے ساتھ سخت روایہ رکھتے ہیں ان اداروں میں لوگوں کا دل کام سے بہت جلد اکتا جاتا ہے اوراداروں کے ملازمین ایسے اداروں سے صرف کام کی حد تک منسلک ہوتے ہیں۔ان کا اس ادارے سے کوئی دلی یا جذباتی تعلق نہیں ہوتا ۔ جبکہ وہ ادارے جہاں افراد کی اہمیت ہوتی ہے جہاں انسانی قدریں مشترک ہو، جہاں اصول یکساں ہو، جہاں انفرادی فرد کی ذات، سوچ و خیال، کی پزیرائی ہو وہاں نہ صرف دوستانہ ماحول ہوتا ہے بلکہ وہ ادارے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ، ان اداروں سے ایک مظبوط رشتہ قائم ہوتا ہے، وہاں ایک دوسرے کے لئے نیک اور پر خلوص جذبات ابھرتے ہیں ۔ وہاں کام کرنے والے مطمعن اور خوش ہوتے ہیں ،
بلکل اسی طرح زندگی کے تمام تر شعبوں میں ، رشتوں میں یہی ہوتا ہے دوستو میں جب کوئی اپنے آپ کو فوقیت دینے لگتا ہے ، یا ذات پات جیسے عنصر آجاتے ہیں ، خود نمائی، خود غرضی آجاتا ہے تو پھر دوستی میں دراڈھے پھوتٹنے لگتے ہیں۔ دوستی میں سرد مہری پیدا ہوتی ہے ، اور پھر خاموشی سے یہ رشتے گمنام ہو جاتے ہیں ۔
تو جناب انا، خود نمائی ، محترم، عزت معآب وغیرہ بنے کی کوشش رشتوں میں دیوار حائل کرنے کا مٰترادف ہے ، ہمیں کھل کی جینے کی ضررت ہے، حقیقی عزت اور محبت کرائی نہیں جاتی بلکہ ہو ہو جاتی ہے، جسطرح پھول کی خاموشی ، رنگ اور خوشبو بلبل کی زبان پر ترانے لے آتی ہے، جسطرح چراغ اپنی ضمیر کی روشنی سے پروانے کو اپنے کیھچ لے آتی ہے ۔ ۔ لگتے ہیں۔ دوستی میں سرد مہری پیدا ہوتی ہے ، اور پھر خاموشی سے یہ رشتے گمنام ہو جاتے ہیں ۔
ایک کمنٹ