کالمز

شاہراہ قراقرم پہ کانوائی کے نظام پر خدشات اور ضرورت

شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا واحد زمینی راستہ ہے ۔ اس ہائی وے کو شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ اس کے ایک سرے پر پاکستان کا شہر حسن ابدال ہے اور دوسرے سرے پر چین کا شہر کاشغر ہے۔ یہ شاہراہ چین کی تعاون سے بیس سال کے عرصے Aqil Hussain Astoriمیں 1986 میں تعمیر ہوئی اور اس کی تعمیر میں نوسو سے زائد افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس عظیم سڑک کی کل لمبائی 1300 کلو میٹر ہے ۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی سڑک ہے جو قراقرم جسے بلند پہاڑی سلسلے کو عبور کرتی ہے ۔ نہایت بلند اور دشوار علاقے میں تعمیر ہونے کی وجہ سے اسے دنیا کا اٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ شاہراہ پاکستان کے لیے دفاعی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ یہ شاہراہ پاک فوج کے لیے شخمہ ، منی مرگ ، گلتری اور سیاچن جسے اہم محاذ کا واحد سپلائی لائین ہے۔اس کے علاوہ شاہراہ ریشم پاک چین تجارت اور گلگت بلتستان کے سویلین کو پاکستان سے ملانے کا بھی واحد زمینی راستہ ہے ۔اس شاہراہ کے ذریعے بہت سے ملکی اور غیر ملکی سیاح گلگت بلتستان کے خوبصورت مقامات دیکھنے آتے تھے جس میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہوتی تھی ۔ لیکن افسوس کچھ عرصہ پہلے درندہ صفت دہشت گردوں نے اسی شاہراہ پرگلگت بلتستان کے عوام کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے قتل کیا ۔اس کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں کو بھی بے دردی سے مارا گیا جس کے بعد حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کی ٹرانسپورٹ کوکانوائی کی شکل میں سکیورٹی فراہم کی۔ یوں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ۔لیکن کئی مرتبہ مسافروں کو سکیورٹی خدشات کے بہانے تکلیفات سے دوچار بھی کیا گیا۔

چند روز پہلے کی بات ہے کوہستان ہربن نالہ کے قریب کوہستان پولیس نے سکیورٹی خدشات کا بہانہ بناکر گلگت بلتستان سے راولپنڈی کی طرف آنے والی تمام گاڑیوں کو روکا جس پرمسافروں نے بارہا التجاء کی لیکن خیبر پختونخوا پولیس نے ایک نہیں سنی جس پر مسافروں نے تنگ آ کےاحتجاج کیا تو کوہستان پولیس نے لاٹھی چارج کرکے مسافروں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اندھا دھن ہوائی فائرنگ کھول دی۔ اسی دوران ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں تین مسافر زخمی ہوگئے ۔ان ہزاروں مسافروں میں خواتین طلبا ، بوڑھے اور بیمار بھی شامل تھے جو بے یارو مددگار سخت سردی میں سراپا احتجاج گھنٹوں کھڑے رہنے کے باوجود آخر میں تمام مسافروں کو زبردستی واپس چلاس روانہ کیا گیا۔ جس سے مسافروں کا نہ صرف وقت ضائع ہوا بلکہ عوام میں خوف وہراس بھی پھیل گیا ۔ اگر ان مسافروں کی سکیورٹی میں معمور اہلکار ان سے تعاون نہیں کرینگے اور غنڈاگردی اور گلوبٹ کردار ادا کرینگے تو آخر یہ مسافر کہا جائینگے ۔ خیبر پختونخوا پولیس اور FCوالوں کا یہ رویہ کو ئی نئی بات نہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مسافروں کے ساتھ یہ نارواسلوک صرف خیبرپختونخوا میں نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے حدود میں بھی مقامی پولیس ، ٹرانسپورٹرز اور ہوٹل مالکان کی وجہ سے بے پناہ پریشانیون کا سامنا کرتے ہیں۔

پولیس اور ٹرانسپورٹرز مافیہ کی ملی بھگت سے ایسے ہوٹلوں میں گاڑیوں کو روکا جاتا ہے جہاں ان کی ڈیل ہوتی ہے ۔ ان ہوٹلوں میں کھانوں سے لیکرقیام کا نظام نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اُن کے ریٹس آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں ۔ان ہوٹلوں میں مسافر حضرات پریشان اور ڈرئیورحضرات وی ائی پی کھانوں کا مزہ لیتے ہیں ۔ کچھ علاقوں کے مسافروں کو راستے میں رات بھی گزارنا پرھتاہے جس میں بلتستان سر فہرست ہے وہاں سے آنے والی تمام گاڑیوں کو ٹرانسپورٹرز اور ہوٹل مافیہ کی ملی بھگت سے جگلوٹ میں سکیورٹی خدشات کا ڈرامہ رچا کرروکا جاتاہے جہاں قیام اور طعام کا نظام اتنا بدترین ہے کہ کوئی جانور بھی اُس ماحول میں پانچ منٹ گزارنا پسند نہ کرے لیکن نرخ نامے عوامی سوچ اور مارکیٹ کے اصول سے بھی کہیں اوپر،لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جگلوٹ کے مقام پر لوگ گاڑیوں کی سیٹوں پر ہی رات گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔اسی طرح محکمہ داخلہ کی طرف سے تمام گاڑیوں کے ساتھ ایک سکیورٹی گارڑ بمعہ ہتھیار کے ساتھ رکھنا لازمی قرار دیا گیا تھا ۔جس کے لیے حکومت کی طرف سے لائیسنس بھی جاری کیا گیا ہے اور ٹرانسپورٹر کرائے کے ساتھ سیکورٹی گارڈ کا خرچہ بھی عوام سے وصول کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے تمام گاڑیوں میں ایک ہی بندہ سکیورٹی گارڈ ،کنڈیکڑ ۔لوڈرکے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر گاڑیوں کی کنڈیشن کی بات کریں تونیٹکو سمیت تمام کمپینوں کی گاڑیاں کھٹارہ بن چکی ہیں جو کسی بھی وقت حادثے کا شکار ہوسکتی ہے لیکن محکمہ ایکسائز بے خبری کے عالم میں گہری نیند سو رہے ہیں۔اسی طرح کچھ عرصے سے ایک لابی کانوانی سسٹم کو ختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے عوام سوال کرنا چاہتی ہے کہ کیا پھر سے گلگت بلتستان کے گھروں میں ماتم دیکھنا چاہتے ہو ؟ ان لوگوں سے پوچھیں جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے لہذاکانوائی ضروری ہے البتہ اس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مسافرین کو پریشانی سے دوچار ہونا نہ پڑے۔مسافروں کو سکیورٹی دینا اور مناسب ہوٹلز دستیاب کرنا اور اچھی کنڈیشن میں گارڑیا ں مہیا کرنا مقامی حکومت کی بنیادی ذ مہ داری ہے۔ لہذا آخر میں وفاقی اور مقامی حکومت سے گزارش ہے کہ عوامی مفاد میں کانوائی کی مکمل ذمہ داری پنڈی سے لیکر آخری منزل تک گلگت بلتستان اسکاوٹس کو سونپا جائے۔ کانوائی کیلئے ایک مناسب وقت تعین کرکے بغیر کسی پڑاو کے اس سلسلے کو جاری رکھنا گلگت بلتستان کے عوام کی اولین اور اہم ضروریات میں شامل ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button