کالمز

قدرتی آفات اور نوجوانوں کا مطالعاتی دورۂ گلگت

DSCN7693

 تحریر : محکم الدین ایونی

ماہرین ارضیات کے مطابق چترال کی پوری وادی ریڈ زون میں واقع ہے ۔ اس بنا پر یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے ۔ چترال میں قدرتی آفات کے حوالے سے کام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مختلف اوقات میں سمینارز اور ورکشاپ کے ذریعے گذشتہ کئی سالوں سے قدرتی آفات کے سلسلے میں آگہی دینے کی مسلسل کو شش کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے چترال میں فوکس ہیومنٹیرین اسسٹنس کا کردار ہمیشہ سے قابل ستائش رہا ہے ۔ ارضیاتی ماہرین نے چترال کی زمین کے اندر کی پلیٹس کی آپس میں ٹکرانے کے ممکنہ خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ تو موسمیاتی ماہرین گلو بل وارمنگ کی وجہ سے چترال پر پڑنے والے منفی اثرات کو اور بھی تباہ کُن قرار دے ر ہے ہیں ۔ جس کا مشاہدہ گذشتہ چند سالوں کے دوران کیا جا چکا ہے ۔ بریپ ، سنوغر ، بندوگول ، ایون ، ریشن ، شیشی کوہ وغیرہ علاقوں میں آنے والے تباہ کن سیلاب اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ جو ان وادیوں کے بالائی پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز کے بے تحاشہ پگھلنے یا پھٹنے کی وجہ سے سیلاب کی صورت میں انسانی جانوں ،مکانات اور باغات و اراضیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں ۔کہ ہر خیر اللہ تعالی کی طرف سے اور ہر شر انسانوں کے منفی اور غیر دانشمندانہ اعمال کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ لیکن اللہ رب العزت نے کسی بھی کام میں بہتری کی گنجائش رکھی ہے ۔ انسان اللہ کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط پر کاربند رہ کر اُن کی دی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کرکے ہر اُس کام میں بہتری لا سکتاہے ۔ جو اُس کی لاعلمی ،نا فہمی اور غیر دانشمندانہ افعال کے نتیجے میں کائنات کے توازن میں بگاڑ پیدا کرکے خود اُس کیلئے وبال جان بن چکے ہیں ۔ ان باتوں کو سمجھنے کیلئے بہت بڑے عالم یا سکالر ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ صرف اپنی ذہن میں حساسیت پیدا کرکے اُن کو پرکھنے کی ضرورت ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کے تجربات اور مشاہدات سے فائدہ اٹھانے کا رجحان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ بلکہ اس پر تو جہ ہی نہیں دی جاتی ۔ اس بنا پر علاقائی و حکومتی سطح پر ایک ہی کام پر وسائل اوروقت کا با ر بار ضیاع کیا جاتاہے ۔ ایسے میں موجودہ دور کی سائنسی باتیں تو شاید ہی کسی کے پلے پڑسکتی ہیں ۔ یہ امر حقیقت ہے ۔ کہ آنے والے آفات کو ٹالا نہیں جا سکتا ۔ اور بہت سے آفات ایسے ہیں ۔جن کے رونما ہونے کے بارے میں وقت کے تعین کے سلسلے میں سائنسدان تاحال عاجز ہیں ۔ لیکن اُن خطرات کے بارے میں سائنسدان اپنی مسلسل تحقیق اور مشاہدات کے نتیجے میں بنیادی معلومات ضرور رکھتے ہیں ۔ اسی طرح ہر علاقے کے لوگوں میں اپنے ماحول ، جغرافیہ اور زمین کی ساخت کے مطابق آفات کے بارے میں بہت زیادہ معلومات پائی جاتی ہیں ۔ لیکن ان تجربات اور مشاہدات پر عملدآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔

اسی مقصد کے تحت حصول شدہ علم کے ذریعے یہ آگہی پھیلا نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کہ خدا نخواستہ ایسے آفات کے رونما ہونے کی صورت میں سابقہ تجربات اور مشاہدات پر مشتمل تدبیر اور عمل اختیار کیا جائے ۔ تاکہ نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے ۔ چترال میں زلزلے ، لینڈ سلائڈنگ ،سیلاب اور پہاڑی تودوں اور برف کے تودوں کا گرنا وغیرہ ایسی آفات ہیں ۔ جس سے اس علاقے کے لوگوں کا ہمیشہ واسطہ پڑتا ہے ۔ اور اب تک سینکڑوں انسانی جانیں ،حیوانات ،املاک اور آراضیات و باغات اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ خاص کر گذشتہ دس سالوں سے چترال کے اندر آفات کا آنا ایک معمول بن گیا ہے ۔ سیلابوں کے نتیجے میں آنے والی تباہی سب سے زیادہ ہے ۔ ان سیلابوں کی وجہ سے صوبائی حکومت کی طرف سے چترال کی تعمیر و ترقی کیلئے سالانہ مختص ہونے والا اے ڈی پی فنڈ نئی سکیموں کی بجائے بحالی سکیموں پر خرچ ہو رہے ہیں ۔ محکمانہ طویل طریقہ کار اور فنڈ کی فراہمی کا طویل مرحلہ گزرنے کے بعد سیلاب ،دریا کے کٹاؤ یا دیگر نقصانات کی بحا لی کا کام شروع کیا جاتاہے ۔ تو بحالی کا وہ منصوبہ مکمل نہیں ہو چکا ہوتا ، کہ دوسرا ڈیزاسٹر آجاتا ہے ۔ یوں نہ ختم ہونے والے سیلابی آفت سے چترال کی پوری آبادی دوچار ہے ۔ اس سے نہ صرف ملکی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ بلکہ لوگ مستقل بنیادوں پر مشکلات سے دوچار ہونے کی وجہ سے غربت نے علاقے پر ڈھیرے ڈال دیے ہیں ۔ متذکرہ بالا آفات سے بیرونی دنیا کے لوگوں نے جہاں بہت وسیع علم حاصل کرکے نقصانات کو کم سے کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔وہاں گلگت بلتستان خصوصا عطا آباد ، گلمت اور گوجال کے علاقوں میں آفات سے متاثرہ افراد کے تجربات اور مشاہدات اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔ان ہی تجربات اور مشاہدات کے تبادلے اور خدانخواستہ آیندہ آفات آنے کی صورت میں نقصانات کو کم سے کم کرنے کے حو الے سے کوششوں کو کامیاب بنانے کیلئے اے کے آر ایس پی کے ایلی EELY))پراجیکٹ کی طرف سے فراہم کردہ فنڈؑ سے ایون اینڈ ویلیز ڈویلپمنٹ پروگرام ( اے وی ڈی پی ) کے اٹھارہ ممبران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی ۔ جو کہ ریجنل پروگرام آفیسر فوکس چترال امیر محمد کے تعاون سے پانچ روزہ مطالعاتی دورے پر عید کے تیسرے دن سے گلگت روانہ ہوا ۔ٹیم میں ایون ، رمبور ، بمبوریت اور بریر سے تعلق رکھنے والے فوکس کے سارٹ ممبران اور اے وی ڈی پی کے منیجر وزیر زادہ اور دیگر اسٹاف شامل تھے ۔

DSCN7314

گلگت پہنچنے پر فوکس کے ریجنل پروگرام منیجر ڈاکٹرنذیر احمد اور پروگرام آفیسر صاحب جان نے مہمان ٹیم کو خوش آمدید کہا ۔ اور اپنے ادارے کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ۔ کہ فوکس گلگت کے سات اضلاع اور ضلع چترال میں کام کر رہا ہے ۔ اور ان کے سارٹ ، ڈارٹ کے رضاکار پورے گلگت میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اور اپنے سامان و آلات کے ساتھ ہمہ وقت مصیبت زدہ لوگوں کی خدمت کیلئے الرٹ ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ آفات امیر غریب اور عالم و بے علم میں فرق نہیں کرتے ۔ اس لئے فوکس بلا امتیاز سب کی خدمت پر یقین رکھتا ہے ۔ اور یہ ادارہ صرف انسانیت کی خدمت کیلئے مستعد ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ گلگت کے سات اضلاع کے80فیصد ایسے علاقوں اور مقامات کی نشاندھی اور نقشہ کشی کی گئی ہے ۔ جن میں مختلف خطرات و آفات کے امکانات موجود ہیں ۔ اس لئے ان علاقوں کے لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سارٹ کے رضاکاروں کو ٹریننگ اور سٹاک پوائل فراہم کئے گئے ہیں ۔ اور مرکزی آفس کا اُن کے ساتھ قریبی رابطہ ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ گلگت اور چترال میں پانچ ہزار گلیشیرز موجود ہیں ۔ جو کہ عالمی ماحولیاتی حدت کی وجہ سے ان علاقوں کیلئے خطرے کی گھنٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لئے ان علاقوں کے لوگوں کو بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔ خصوصا ایسے علاقوں میں کام کرنے والے ایل ایس اوز کے پاس ایک مکمل ڈیزاسٹر پلان ہونا ضروری ہے ۔ جس کے مطابق کسی بھی آفت کے موقع پر مصیبت زدہ لوگوں کی بر وقت مدد کو ممکن بنا کر نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے ۔ (جاری ہے)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button