شیر بکری اور عمران خان
چرواہے کے پاس بڑی تعداد میں مال مویشی تھے اس کے ساتھ اس کے پاس ایک شیر کا بچہ بھی تھا شیر کا بچہ جوان ہوا اس کی عمر پختہ ہوئی لیکن اس نے کبھی مال مویشی کی طرف آنکھ ٹیڑھی نہیں کی وہ ان کے ساتھ ہی ہنستا کھیلتا کودتاتھا اس کا ایک لمحہ گائے بکری کے بغیر نہیں کٹتا تھا وہ انہی کے ساتھ چرنے کیلئے جا تا تھا ایک روز چرواہا گائے بکریوں کو نہر کی طرف لے گیا نہر کے کنارے بھی انہوں نے موج مستی کرلی چلتے پھرتے شیر پانی پینے کیلئے نہر میں آیا اچانک اس کی نظر نہر کے پانی پر گئی جس میں اسے اپنا عکس نظر آیا چاقتور بڑے بڑے دانت،بڑی بڑی آنکھیں بارعب چہرہ شیر کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا وہ اپنے آپ کو پہنچاننے سے قاصر تھا اس نے پیچھے مڑکر دیکھا تو کوئی اور جنس موجود تھی اس کی بات پلے میں آگئی اس کی عمر بھیڑبکریوں،گائے بیلوں کے ساتھ گزری ہے حالانکہ ان کی جنس اور نصب میں آسمان زمین کا فرق تھا شیر معاملے کو پہچان گیا اس نے جانوروں کے ساتھ خود کو دھوکہ میں رکھا ہے وہ وہاں سے پلٹتے ہی تمام جانوروں کا صفایا کرگیا اور جنگل کی طرف بھاگ گیا
بدقسمتی سے14اگست1947میں وجود میں آنے والے ملک میں ان طاقتور بازووں اور بارعب چہرے والے لوگ بیل بکریوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کے کاز کو اپنا کاز سمجھ رہے ہیں ان شیروں کو بھی ایک بکری کی طرح ایک چرواہا ہانکتا جارہا ہے بد قسمتی سے اس ملک کے لوگ اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہیں یہ شیر کبھی بکری میں شادی میں ناچنے تو کبھی بیل گائے کی تقریبات میں دیوانہ ہوتا جارہا ہے ان کو نہر پر لے جاکر کون دکھا ئے کہ جن بکریوں کے ساتھ آپ گزر بسر کررہے ہیں اور جو زندگی جی رہے ہو یہ آپ کی نادانی ہے انہیں کون بتلائے کہ اس ملک کی بنیاد پر وہ کلمہ ہے جو رسول اللہ ﷺ دنیا میں لیکر آئے تھے کون بتلائے کہ اس ملک کا پس منظر وہ شاملی کا میدان ہے جس میں اسلامی ریاست کیلئے ضامن شہید ہوگیا وہ ہندوستان کے شہر کون دکھائے جس کے میلوں تک درختوں پر آزادی پسند علماء کی لاشیں لٹکائیں گئی وہ توپ کون دکھائیں جس کے منہ پر 200 علماء کو ایک فائر میں خالق حقیقی سے ملایا اور ان کے پرخچے اڑادئے انہیں مسلم لیگ کے بننے کا پس منظر کون دکھائے وہ تحریک خلافت،تحریک ترک موالاات،جو صرف ہندوستان کے اندر ایک آزاد اسلامی ملک کیلئے جدوجہد کیلئے تھے
شاید یہ بکریوں کی زندگی میں رہکر بھول گئے ہیں کہ 1947سے قبل گائے کا دودھ پینے اور اس کو قربانی کیلئے زبح کرنے پر سینکڑوں فسادات ہوئے ہیں اور گنگا خون مسلم س جوش ماررہا تھا جس کو بنیاد بناکر دو قومی نظریہ دیا گیا کہ اسلام کے علاوہ جتنے مذاہب ہیں وہ سب ہمارے نزدیک ایک قوم اور اسلام ایک الگ قوم،رہن سہن،سماج تمدن،تہذیب الگ الگ ہے لہٰذا ایک ایسا وطن بنایا جائے جو صرف مسلم کاز کیلئے ہو
پھول بے پرواہ ہے تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آواز دراں ہو یا نہ ہو
آج شیروں کے اولاد بکریوں کے ساتھ جی رہے ہیں ایک گائے زبح کرنے پر مسلمان کا خون بہانے کا جواب ان کی ثقافت کو باقاعدہ ہمارے گھروں میں پہنچایا جارہا ہے آج کا شیر گوشت کھانے کی بجائے گھاس اور چارے پر گزارہ کررہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو عید کا تو پتہ نہیں ہوتا البتہ ہولی اور ایسٹر کے تہوار کا پتہ ہوتا ہے انہیں غزوہ احد،بدر،حنین تو یاد نہیں البتہ ویلنٹائن ڈے کا پتہ ہوتا ہے اس ملک کے نظام میں صرف خامیاں رہ گئے ہیں لوگ نظام سے نکلنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے نیا پاکستان جیسی تحریک شروع ہوئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگ بکریوں کے ساتھ رہ رہ کر اکتا گئے ہیں اور ایک آزاد اور محفوظ ملک کی تلاش میں ہے جہاں پر بول بالا اسلام کا ہو لیکن یہ تحریک بھی بڑی عجیب ہے کبھی وقت کا کرپٹ ترین سیاستدان ان کی گود اور کاندھوں میں ہوتا ہے کبھی گستاخ رسول ان کے دسترخوان پر ہوتا ہے کبھی آئینی و قانونی طور پر اعلان شدہ قادیانیوں سے ووٹ مانگا جارہا ہے تو کبھی عاطف میاں کو وزیر بنانے کا اعلان ہوتا ہے اور قائد تحریک کی معصومیت دیکھیں کہ انہیں یہ تو پتہ ہے کہ عاطف میاں دنیا کے 25اکانومسٹ میں سے ایک ہے لیکن انہیں نہیں معلوم کہ اس نے ختم نبوت کے خلاف کھلم کھلا کمپیئن کی ہے ستم ظریفی ہے کہ نئے پاکستان نئے نظام اور اچھے نظام کیلئے جدوجہد کرنے والوں کا چرواہا انہیں نہر پر منہ دکھانے کی بجائے چہرے پر مٹی لگارہا ہے ان کی رکنیت بدنام زمانہ فری میسن کی،ان کی ملاقات مسلم دشمن یہودیوں کے سربراہوں سے اس کا سپورٹر امام مہدی ؑ کے جانشین(نعوز باللہ) یونس الگوہر
شیر کے بارے میں تو کہا جاتا ہے جس حال میں بھی ہو جنگل کا بادشاہ ہی ہوتا ہے لیکن یہ کیسا شیر ہے جسے اپنی بادشاہت یاد نہیں ہے بلکہ اسے بکری اور گائے کے ساتھ کھیل کود پسند ہے اور کچھ یاد نہیں ہے علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے
آشنا اپنی حقیقت سے ہے اے دہقاں زرا
دانہ تو،کھیتی بھی تو،باراں بھی تو،حاصل بھی تو
چرواہا تو کبھی نہیں چاہتا ہے کہ تو پانی میں دیکھ سکے تجھے خود ضرورت ہے کہ پانی کی تلاش کرے آئینہ کی تلاش کرے کہ
اک یہی غلطی عمر بھر کرتے رہے غالب
دھول چہرے پر تھی آئینہ صاف کرتے رہے
اسی لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
را ہ تو رہرو بھی تو،رہبر بھی تو،منزل بھی تو
دیکھ آکر کوچہ جاناں میں کبھی
قیس تو،لیلیٰ بھی تو،صحرا بھی تو ،محمل بھی تو