بیمار معاشرے میں حسنین کا قتل ، زمہ دار کون ؟؟
آخر کیوں یہ معاشرہ اتنا بے حس ہوتا جا رہا ہے۔ معصوم حسنین پر جنسی تشدد پھربہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کا نہ صرف اخلاقی زوال ، بلکہ انسانی اقدار کا انحاط ، غیر مہذب معاشرے کا عکاسی بھِی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجوڑ دے مگر ہمارا معاشرہ اتنا مردہ ہو چکا ہے کہ اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور یہ بیمار قوم نیم مردہ حالات میں خاموش رہتے ہیں، ہمارا معاشرہ خود غرضی ، مفاد پرستی،انا پرستی، اور بے حسی کی انتہا کو چھو چکا ہے برائی ، ظلم و بربریت اور نا انصافی کی آگ نے ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، یہ معاشرہ غیر مہذب ، جبر اور تباہی کے ایسی پاتال میں گر چکا ہے جس سے جان چھڑانا نا ممکن سا ہوگیا ہے۔ بے حسی کا زہراس طرح ہماری رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے جیسے نشے میں دھت افراد غلاظت میں پڑے رہنے کے باجود گندگی اور بدبو کی احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ بیمار قوم ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کا نہ انہیں احساس ہے اور نہ ہی اسکا علاج کرانا چاہتے ہیں۔ اور اگر کوئی انکی بیماری کا تشخیص کرئے بھی تو اسکا جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس گھناونی جرم پر آمادہ کرنے والے عوامل کیا ہیں۔ ؟ اس معاشرے کو کند ذہن۔ بیمار اور بے حس بنانے میں کس کا ہا تھ ہے ؟ بہت سے احباب ، دوست اور لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے کا اخلاقی انحاط میں میڈیا، یعنی ٹی وی، انٹر نیٹ ، فلمیں اور موبائل فون وغیرہ جیسے چیزیں ہیں جو انہیں اور انکے بچوں کو برائی پر اکسا دیتی ہیں، انہیں مرتد بنا دیتی ہیں ،انہیں برائی پر اکساتی ہیں، گویا برائِی کا جڑیہی ہے ، ۔ ۔ ذرا سوچیے ہمارا معاشرہ آئی ٹی کے سامنے کتنا لاچار اور مجبور ہو چکا ہے، کہ بس انہیں دیکھتے ہی برائی آ گھیر لیتی ہے ۔ انہیں چھوتے ہی جنسی درندے بن جاتے ہیں ،انہیں دیکھتے ہی اخلاقی اصولوں کو پامال کرنا شروع کرتے ہیں ۔ ۔۔ ذرا خود بتائیں کیا یہ کوئی معقول جواز ہے ؟
یہی چیزیں اہل مغرب و مشرق کے اہل خرد، اور دانشمند انسان استعمال کر کے سیاروں کو تسخیر کرتے ہیں ، یہی موبائل رشتوں کو مضبوط و مستحکام کرتا ہے اور خاندان کے حال و احوال سے باخبر رکھتا ہے ، یہی ٹی وی دنیا کے ایک کونے کو دوسرے کونے کے لوگوں کا ساتھ جوڑے رکھتا ہے ، ان پر تہذیب و تمدن کی نئی جہتے عیان کرتا ہے ، مگر مسلم معاشرے ان سائنسی ایجادات کو کیوں وبال جان سمجھتے ہیں اورپھر ایسا بھِی نہیں کہ ان کو استعمال کرتے نہ ہوں ۔
برائی ، اخلاقی اقدار کا انحاط ، انسانیت سوز اور اندوھناک واقعات کا جڑ سائینسی ایجادات ہر گزنہیں ۔ اس کا زمہ وہ علماء ہیں ، جو اسلام کو چودہ سو سال پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں ، جو معاشرے کو جدید علم سے دور رکھتے ہیں، جو معاشرے کو غیرمنطقی باتوں میں الجھا کر حقیت سے ناآشنا رکھتے ہیں ۔آج شہر گلگت مسلک کی بنیادوں پر بٹا ہوا ہے ۔ شیعہ ، سنی ، اور اسماعیلی محلے الگ الگ ، ان کے آنے جانے کے راستے الگ الگ ، ان کفن دفن کے جگہیں الگ الگ ، یہاں تک کہ کھیل کود کےمیدان بھی الگ الگ ، ہمارے سماجی ، معاشی و معاشرتی میل جول بھی الگ الگ، تعلیم و تدریس کے مراکز بھی الگ الگ ، ایسے حالات میں کیا یم معاشرے سے معنی خیز، شرافت پسند، رجائیت پسند، اور امن پسند نسل کی افزایش کا کیسے امید رکھ سکتے ہیں ؟۔ ، آج معاشرے میں غیر یقینی حالات ، غیر اخلاقی کام ، نفسانفسی ، نفرت، قتل و غارت ، جھوٹ ، ناانصافی وغیرہ جیسے حالات نے معاشرے کو گھیر لیا ہے تو اسکا زمہ دار علماء ہیں ۔ تمام مسالک کے علماء ہیں جو اس معاشرے کی روحانی پرورش میں ناکام ہو چکے ہیں ، جو معاشرے کی کردار سازی میں ناکام ہوچکے ہیں ، آج اگر کوئی ملزم ہے، آج اگر کوئی قاتل ہے ، آج اگر کوئی جھوٹَا ہے، آج اگر کوئی چور ہے ، اج اگر کوئی عصمت فروش ہے، آج اگر کوئی رشوت خور ہے تو یہ سب علماء کے کندھوں پر آتا ہے کہ وہ خاموش ہیں ، میرے نزدیک ان ملزموں کا بھی حساب ہونا چاہیے ، انہیں خود بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ جس منسب پر بیٹھے ہیں اس کا حق ادا کرے اور معاشرے میں ہم آہنگی ، انسان دوستی کا فضا قائم کرے ۔
اس کا ذمہ دار وہ والدین ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ اس میں ماں سے زیادہ باپ کا وہ رول ہے جو کہ ہمارے معاشرے عموما پایا جاتا ہے کہ وہ گھر میں اپنے اولاد کے ساتھ ایک حکم کی طرح پیش آتا ہے ۔جسکی وجہ سے بچے اپنے والد سے اپنے مسائل کو نہ شیئر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسکا اظہار کر سکتے ہیں ۔ یہ معاشرے میں بڑھنے والے تمام برائیوں کا دوسرا ملزم ہے جو اپنا کردار سے غافل ہے ، باپ کا کام صرف اولاد کو روٹی کپڑا مہیا کرنا ہرگز نہیں۔ اسکا کام اولاد کی جسمانی ، روحانی و عقلانی پرورش میں ماں اور استاتذہ کا ساتھ دینا بھی ہے، پاب کا کام بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر مکمل توجہ دینا بھی ہے ۔اگر آج ہماری نئی نسل گمراہ کن راستے پر ہے تو وہ باپ کی اپنے کردار سے غفلت ہے تو یہ دوسرا ملزم ہے
اسکا زمہ دار وہ درسگاہیں ، وہ مدارس وہ اسکولز ہیں جہاں ان بچوں کی نہ روحانی پرورش ہوتی ہے اور نہ ہی جسمانی ۔ ہم ان اسکولوں کو مغرب پسند کہلاتے ہیں جہاں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ غیر تعلیمی سرگرمیاں یعنی کھیل کود پر توجہ دی جاتی ہیں۔یہ درسگاہیں اور ایسے استاتذہ جو اپنے کردار سے غافل ہیں وہ تیسرا ملزم ہیں ۔ معاشرے میں اساتذہ کا کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ماں باپ بچہ کو صرف جنم دیتے ہیں لیکن استاد ہی ہے جو انہیں علم کے سمندر میں ایسی تیراکی سکھاتے ہیں کہ بچہ ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتے ہیں۔ نئی نسل کی دماغ کو وسعت دیتے ہیں ان میں نئی سوچ پیدا کرتے ہیں اور منزل دکھاتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ منزل کو حاصل کرنے کے لئے سہی راستے پر چلاتے ہیں ان میں سہی اور غلط کی پہچان کرواتے ہیں۔ جدید علوم سے انہیں آراستہ کرتے ہیں ۔ انکی روحانی و عقلانی پرورش کرتے ہیں ۔ ان کے ضمیر میں محبت، علم ، دوستی، اور سکون کی شمع جلاتے ہیں مگر جس معاشرے میں اساتذہ کی تقروری مسلکی بنیادوں پرہو ۔ رشوت دے کر ہو تو یہ کیا خاک روحانی و عقلانی پرورش کرے گا ۔ہمارے معاشرے کا یہ تیسرا ملزم ہے اس سے بھی حساب لینے کی ضرورت ہے ۔
اس بیمار قوم کو جاگانے کے لئے ، اس غلیظ معاشرے سے نکلنے کیلئے ، ان تین ملزموں یعنی علماء۔ والدین ، اوراساتذہ کو سداھرنا لازمی ہے ، وارنہ ہم تاریک سمندر میں ڈھوپتے جائِنگے ۔ کوئی ہمیں بچانے نہیں آئے گا، پڑھے لکھے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ناانصافی کے خلاف بہاردی سے وعقلمندی سے آواز اٹھائیں ۔ معاشرے کی کردار سازی میں اپنا کراد ادا کرئے ، رنگ ونسل، مسلک و فکر ، علاقہ پرستی سے نکل کر انسانیت میں گل مل جائے ، حکومت کی زمہ داری ہے وہ ملزموں کو سزا دے ، نوجوانوں کے لئے صحت مندانہ تقریبات کا آغاز کرئے ، حسنین نے ہمیں جاگایا ہے اس بیمار قوم کو جنجھوڈا ہے ۔ اس معاشرے کا عکس ہمیں دیکھایا ہے ۔ اس کی قربانی کو رائے گان مت جانے دے ، ورنہ ہم سب ملزم ہیں ، حشر میں ہم سے ان تمام بے گناہ لوگوں کا ہماری خاموشی پر سوال ہو گا ۔۔ ۔ اٹھائے اور معاشرے کی پر امن و انسانیت پسند تشکیل میں اپنا کردار ادا کرئے ،