منور حسن کی گزارشات
ملک میں جہاں ہر طرف جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ عروج پر ہے تو ان کی رونق کو چار چاند لگانے کی خاطر دھرنوں اور احتجاجی سیاست سے زندگی کی سانس لینے والے مذہبی گروپ یعنی جماعت اسلامی نے بھی پاکستانی سیاست کا مرکز لاہور میں مینارِ پاکستان کے سایہ تلے اجتماع کا انعقاد کیا، تین دن تک جاری رہنے والے اس اجتماع کے آخری روز سابق امیرِ جماعت اسلامی منور حسن نے خطاب کرتے ہوئے جماعت کی اصلیت کو تشتِ ازبام کیا جبکہ افراتفری اور خونریزی کے عالم میں بھی انہوں نے قتال کا درس دے کر ارشاد فرمایا کہ صرف انتخابی سیاست سے باطل (بقول منور حسن) کو مٹانا ممکن نہیں ۔اس اشتعال انگیز بیان کے بعد سراج الحق کی قیادت میں گزشتہ تین چار مہینوں کی کاکردگی سے جماعت کا جو امیج بنا تھا اس پر پانی پھیر گیاہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے سابق امیر کے بیان پر خاموشی اختیار کی جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو ارشادات منور صاحب فرما رہے ہیں وہ جماعت اسلامی کاسوچ بھی ہے دراصل سراج الحق کی نپی تلی سیاست کی وجہ سے عوام شدید کنفیوژن کا شکار ہو کر اسے جماعت اسلامی کے بنیادی منشور میں انقلابی تبدیلی سے تعبیر کر رہے تھے خوش آئندامر یہ ہے لاہور کے اجتماع میں سراج الحق اور منور حسن کے بیانات سے اس خوش فہمی کا بھی آزالہ ہوکر اس جماعت کا اصل چہرہ عوام کے سامنے آگیا۔ اس ساری صورتحال کاتکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ حکومتی ترجمان نے ایکدم سے بیان جاری کرتے ہوئے ارشاد فرما یا کہ’ یہ جماعت اسلامی کی نہیں بلکہ منورحسن کا ذاتی موقف ہوگا ‘‘جبکہ جماعت کواس بیان سے لاتعلقی ظاہر کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا ۔منورحسن صاحب کا اس سے قبل بھی اسی قسم کے خوشگوار بیانات سے ہم لطف اندوز ہوتے آئے ہیں مثلاََ جب طالبان راہنما حکیم اللہ محسود کو امریکن ڈرون نے نشانہ بنایا تو سوگ میں ڈوب کر منور حسن نے فرمایا کہ حکیم اللہ محسود تو شہید ہے جبکہ اسی ہی لمحے یہ بھی فرمایا کہ اگر طالبان کے ہاتھوں مرنے والے امریکی فوجی شہید نہیں ہوتے تو پاکستانی فوجی کیسے شہید کہلائینگے ؟؟منور حسن کا حالیہ بیان کیا محض اتفاق ہے ؟ کیا جماعت اسلامی کے نظریات او ر منور حسن کے بیانات میں کوئی تعلق نہیں ؟ اور سب سے بڑھکر یہ کہ کیا دیر سے تعلق رکھنے والے جماعتی سربراہ سراج الحق جماعت اسلامی کو مذہبی فرقے سے نکال کر ایک سیاسی جماعت بنا نے کی اہلیت یا خواہش رکھتی ہے ؟ان سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہے ۔جماعت اسلامی کی تاریخ قتل وغارت گیری، نظریاتی مخالفین کو کچلنے اور شدت پسندوں کے لئے ہمدردانہ جذبات سے معمور ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے شدید مخالف اس جماعت کے سربراہ پاکستا ن بننے کے بعد لاہور آکر آباد ہوگئے اورملک کو مذہبی رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف ہوئے خصوصاََ قائد کی بے وقت موت اور لیاقت علی خان کی پاؤر پالیٹکس کی وجہ سے اسے پاکستانی سیاست میں قدم جمانے کا موقع ملا پھر 50ء کی دھائی میں لاہور میں احمدی فرقے کے افراد کی قتلِ عام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس پر جماعت کے بانی سربراہ مودودی کو عدالت نے سزائے موت سنادی لیکن بہت جلد سیاسی دباؤ میں آکر حکومت نے اس فیصلے پر نظر ثانی پر مجبور ہوگئے اور یوں مودودی کو چھوٹ ملی 1971ء کو بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران جماعت کے ذیلی تنظیموں البدر اور الشمس کے مسلح افراد نے لاکھوں بنگالیوں کو ابدی نیند سلا دی خواتین کی آبروریزی کی گئی اسی جرم کے پاداش میں بنگلہ دیشی حکومت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے صفہء اول کے کئی راہنماؤں کو سولی پر چڑھا دیاہے۔اس سے قبل 1970ء کے انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے جماعت اسلامی سمیت سارے مذہبی گروہوں کو مسترد کر کے عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسے ترقی پسند اور سیکولر قوتوں کو کامیاب بنایا تھا اسکے بعد 1977ء کے انتخابات میں بھی مذہبی طبقے عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہی عوام کی اس سرد مہری کا بدلہ 1977ء کے مارشل لاء میں ضیاالحق کا ساتھ دیکر عوام سے لیاگیا جب 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت بھی جماعت اسلامی ضیاالحق کے دست راست تھے جنہوں نے ضیا کو بھٹوکے عدالتی قتل پر اکسایا تھا یہی نہیں ضیا کے ظلم وبربریت پر مبنی حکومت میں جماعت اسلامی وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے 1979ء میں جب دو ہاتھیوں (روس اور امریکہ) نے افعان سرزمین کو میدانِ جنگ کے طورپر چنا تو سی آئی اے کے ہتھیار، عرب ممالک کی دولت اور پاکستانی مذہبی طبقات کی افرادی قوت نے افعانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی افعان جنگ کو جہاد کا نام دینے والے امریکہ بہادرکو 80ء کی دھائی میں یہی جماعت اسلامی ’ اہلِ کتاب ‘کے لقب سے بھی نواز ا اس دور میں یہ نعرہ مشہور ہوا کہ’’ لادین کمیونسٹ روس پر اہلِ کتاب امریکہ کی صورت میں خدا کا عذاب نازل ہوچکا ہے ‘‘ امریکہ کے دئیے ہوئے جہاد کا نعرہ اب بھی مذہبی جماعتوں کے اراکین ازبر کئے ہوئے ہیں لیکن فرق اتنا کہ 80کی دھائی کے’ اہلِ کتاب‘ اب زندیق کافر بن چکا ہے جس کے خلاف جہاد فرض ہے جماعت اسلامی باطل ( وہ لوگ جو نظریاتی طورپر جماعت اسلامی کی مخالفت کرتے ہیں وہی ان کے بقول باطل ہے ) طبقے کے خلاف جہاد اور قتال کا درس دے رہے ہیں اگر یاد ہو تو 2013کے عام انتخابات سے قبل منور حسن نے فرمایا تھا کہ’’ لبرل طبقہ اپنا نام اقلیتوں کی فہرست میں درج کریں‘‘۔ ضیاالحق جیسے ظالم وجابرڈیکٹیٹر کے لئے ’مردِ مومن مردِ حق ضیاالحق ضیاالحق ‘‘کا خوبصورت نعرہ بھی جماعت ہی نے دریافت کیاتھا حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں اسلامی جمعیت طلبہ کے امیر کے کمرے سے دہشت گرد برآمد ہونا ، پشاور یونیورسٹی میں چار برس قبل انجینئر عدنا ن کی بہیمانہ ہلاکت اور وقتاََ فوقتاََ مخالفین کو ہراسان کرنا ،راولپنڈی اور دوسرے شہروں میں جماعتی اہلکاروں کے گھروں میں عالمی دہشت گردوں کی موجودگی، اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر منایا جانے والاسوگ ، اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے شہید اہلکاروں کی قربانیوں پر پانی پھیرنا اس امر کا غماز ہے کہ جماعت اسلامی ایک فاشسٹ گروہ ہے جو اپنے ہم نظریہ طبقے کے علاوہ کسی کو بھی جینے کا حق نہیں دیتے ۔