کالمز

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی۔۔۔۔۔

  تحریر:۔ دردانہ شیر

دنیا کا بلند ترین پولو گراونڈ شندور جسکی بلندی سطح سمندر سے12600فٹ ہے اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے ہر سال موسم گرما یعنی جولائی کے مہینے میں اس پر فضا مقام پر گلگت اور چترال کی ٹیموں میں کھیلوں کا بادشاہ اور بادشاہوں کا کھیل پولوکا مقابلہ ہوتا ہے جو گلگت اور چترال کے عوام کاباہمی محبت اور اخوت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس ٹورنامنٹ میں دونوں علاقوں کے عوام کی کثیرتعداد کے علاوہ ملکی و غیر ملکی سیاح بھی اس اس خوبصورت مقام پر خیمہ زن ہوتے ہیں کئی سالوں سے گلگت اور چترال کے ٹیموں کے درمیان دنیا کے اس بلند ترین پولو گراونڈ میں پولو میچ کے علاوہ بزکشی دوڑنشانہ بازی اور دنیا کی نایاب مچھلی ٹراوٹ کے شکار کے مقابلے بھی ہوتے رہے ہیں شندور چترال اور غذر کے آخری حدبندی پر واقع ہے شندور جھیل کی مشرق کی طرف پانی کا بہاؤ غذر کی طرف آتاہے جبکہ اس جھیل سے پانی کا ایک قطرہ بھی چترال کی طرف نہیں بہتا اس کے باوجود بھی چترال انتظامیہ نے فورس کی بل بوتے پر شندور میں تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے حالانکہ سابق صدر پاکستان جنرل(ر) پرویزمشرف نے اپنے دورہ شندور کے موقع پر شندور میں تعمیرات پر فوری پابندی لگائی تھی اس کے باوجود بھی چترال انتظامیہ باز نہیں آئی جس وقت ضیاء الحق اقتدار پر تھے تو انھوں نے شندور میلے میں شرکت کی تھی اس کی امد کی اطلاع پر چترال سکاوٹس نے شندور پولو گروانڈ کے قریب ایک چھوٹا سہ کمرہ تعمیر کرایا تھا جبکہ پورے شندور کے میدان میں کسی قسم کی کوئی تعمیرات موجود نہیں تھی ضیاالحق کے دورے کے بعد آہستہ آہستہ چترال انتظامیہ نے مقامی فورس کے بل بوتے پر تعمیرات کا سلسلہ شروع کروایااس کے بعد سے اب تک تعمیرات مختلف شکلوں میں جاری ہے چترال انتظامیہ کی ان حرکتوں پر شندور میں حد بندی کے معاملے پر گلگت اور چترال کے عوام میں معمولی نوعیت کے جھگڑے بھی ہوتے رہے ہیں ہر سال شندور میلے کے موقع پر گلگت بلتستان کے سیاسی لیڈرجون سے لیکر اگست تک اس پر فضا مقام کی حد بندی کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کسی سیاسی نمائندے نے اس اہم مسلے کی حدبندی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جسکی وجہ سے ہر سال ٹورنامنٹ کے دوران سیٹیج پر چترال انتظامیہ کا قبضہ ہوتا ہے جبکہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ سٹیج کے گرد بچوں کی طرح گھومتے نظر آتی ہے۔

شندور جیسے پر فضامقام کی حفاظت کرنا ہم سب کی زمہ داری ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی دفاع ہم سب یعنی میں اور آپ سب لوگ اپنے لیے نمائندے چن لیتے ہیں تو یہی سوچ کر انکا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حقوق کا مطالبہ اور دفاع کرلینگے لیکن شندور کے معاملے میں جو صورت حال نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ شندور ہمارے ہاتھ سے جارہا ہے شندور کے ہمارے ہاتھ سے جانے کے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آج تک گلگت بلتستان کے کسی بھی نمائندے نے اس حساس معاملے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے دوسری بات یہ کہ گلگت بلتستان کے آفیسرشاہی،بیوروکریٹس اور سیاسی نمائندوں نے اس اہم مسلے پر کوئی توجہ نہیں دی ہاں جون کا مہینہ اتا ہے تو سیاست دان بھی بولنا شروع کرتے ہیں اور سیاست میں نئے نئے داخل ہونے والے افراد بھی بڑے جذباتی نظر اتے ہیں اور جب سہ روزہ میلہ ختم ہوجاتا ہے تو شندور کا مسلہ بھی خاموش ہوجاتا ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیاست دان آواز اٹھاتے بھی ہیں تو وہ صرف اخباروں کی حد تک محدود ہوتی ہے وہ اسلام آباد کے فائیوسٹار ہوٹلوں کے نرم ملائم بیڈز پر بیٹھ کر شندور پر چترال کا قبضہ جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کے بیانات جاری کرتے ہیں جو گلگت پہنچ کر دم توڑدیتی ہے قارئین کرام جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ شندور پولو گراونڈ کو آج سے تقریبا 71 سال قبل 1945/46ء میں اس وقت کے پولیٹکل ایجنٹ گلگت کرنل ایم بی کاب نے غذر کے عوام سے تعمیر کروایاتھا اور اب جس جگہ چترال فورس نے ریسٹ ہاؤس تعمیر کیا ہے وہ ماضی میں کوہ غذر کے گورنر کا کیمپ ہوا کرتا تھا اور اسکے بعد 1982میں اس وقت کے چیرمین ڈسٹرکٹ کونسل گلگت لطیف شاہ مرحوم نے بھی اسی جگہ کو بطور کیمپ استعمال کیا تھا۔ اس وقت چترال کے عوام کو گراونڈ سے دوسری طرف یعنی چترال کی طرف کیمپ لگانے کی اجازت تھی حالانکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ موجودہ گراونڈ ضلع غذر کے عوام نے بنایاتھا اس کے باوجود بھی چترال انتظامیہ کا تعمیرات جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ چترال انتظامیہ کو کے پی کے حکومت کی حمایت حاصل ہے جبکہ جی بی کے اس خطے کی حمایت کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہااور ہم خاموشی میں ہی عافیت جانتے ہو ئے رہنا شروع کرینگے تو یقیناًوہ دن دور نہیں ہو گا کہ چترال انتظامیہ اپنے فورس کی طاقت کے بل بوتے لنگرپر بھی قبضہ کرینگے تو کیاپھر بھی ہمیں اس طرح خاموش رہنا ہوگا ہم سب کوملکر اپنے جغرافیائی حدود کا تعین کرنا ہے چونکہ ہم اگر یہ بوجھ اپنے سیاسی نمائندوں کے کندھوں پر ڈال دینگے تو ان بیچاروں پر ویسے بھی ایم ڈی نیٹکو کو ہٹانے کا جو بڑا بوجھ لدا گیا ہے اوپر سے یہ بڑی زمہ داری بھی ان پرآن پڑی تو یہ بوجھ اٹھانا ان کے لیے مشکل ہوگا آخر میں قتیل شفائی کے اس شعر کے ساتھ آپ سے ایک بار پھر گزارش کرونگا کہ ائیے ہم اپنے کندھوں سے کندھا ملا کر اپنے اس خطے کی پاسبانی کر یں بقول شاعر۔

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں دیکھا
جو ظلم تو سہتا ہے بٖغاوت نہیں کر تا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button