کراچی، NSF گلگت بلتستان کے زیر اہتمام خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی دن پر سیمینار
کراچی (پریس ریلیز) نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان سندھ زون نے خواتین پر استحصال کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے کراچی میں ایک سیمینار منعقد کرایا جس میں گلگت بلتستان سمیت کراچی اور سندھ کے طلباء اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب میں NSF گلگت بلتستان کی گُزارش پر سُپریم کورٹ آف پاکستان کی سینئر وکیل ایڈوکیٹ نُور ناز آغا ، جامعہ کراچی کی سابقہ سینئر ریسیرچ پروفیسر اور ROOTS کی ڈائریکٹرڈاکٹر عذرا طلعت سعید اور فری لانس صحافی کامریڈ حُسنہ علی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر عذرا نے پدر شاہی نظام (Patriarchy ) اور اسکے اثرات پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ پدر شاہی نظام نے مرد و عورت دونوں کو متاثر کیا ہے مگر عورت پر اس کے گہرے اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عورت کو معاشی طور پر فعال بنانا اور فیصلہ ساز ی میں اسکو حق دینا عورت کی آزادی کے اہم جزو ہیں۔ ایڈوکیٹ نُور ناز آغا نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے موجود قوانین پر تفصیلاً بحث کی اور ان قوانین کے عملدرامد کے راہ میں حائل سماجی پیچیدگیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے پاکستانی آئین میں موجود ان قوانین کی بھی بات کی جن کے مطابق عورت کے استحصال کو قانونی بنایا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل C117 پر بھی گفتگو کی گئی جس میں Home Based Industry چلانے والی خواتین کو مزدور تسلیم نہیں کیا جاتا۔
نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے شازیہ غازی نے گلگت بلتستان اور پاکستان میں جنسی بنیادوں پر کئے جانے والے استحصال کے مختلف کیسز اور ان کی Statistics بیان کیں۔ انھوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان کی اپنی کوئی پہچان اور آئینی حق نہیں ہونے کی وجہ سے ہماری بیچ ایسے کیسز کا صحیح ریکارڈ نہیں مل پاتا اور نہ ہی اسے سروے ہوتے ہیں، کیا عورتوں کے آئے روز خود کشیوں اور دیگر واقعات کاہماری روایتی پدر شاہی نظام سے کوئی خاص ملاپ نہیں ہے؟ NSF گلگت بلتستان کی نائب صدر کامریڈ ساجدہ شاہ نے مردوں اور خواتین سے متعلق رویوں کو معاشرے کا دوغلا پن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے گھروں سے ہی ہمیں یہ تعلیم ملی ہے کہ بھائی اور والد ہی وہ لوگ ہیں جو گھر میں فیصلے لے سکتے ہیں، والدہ اور بہن کا یہی کام ہے کہ وہ گھر میں مردوں کی فرمانبرداری کریں ، سر جھکا کر چلیں اور شریف کڑکیا ں کہلائیں۔ NSF گلگت بلتستان کی طرف سے عورتوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے استحصال کے اوپر ڈرامے، گانے اور شاعری پیش کی گئی۔ گلگت بلتستان کے شُرکاء کی جانب سے مولا مدد قزل صاحب نے دادی جواری ، نور بخت خاتون اور دیگر تاریخی بہادر خواتین کی زندگی اور ان کی جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
"Brave Ladies of Gilgit-Baltistan” کے نام سے بنائی گئی ایک ویڈیو ڈوکیومنٹری بھی پیش کی گئی جو کہ NSF گلگت بلتستان کے طرف سے تیار کی گئی تھی۔ اس ویڈیو میں ثمینہ بیگ، ڈیانا بیگ، ملکہ نور اور اس کی ٹیم، پاکستان فُٹ بال ٹیم میں شامل گلگت بلتستان کی 5 نوجوان لڑکیاں، DSP طاہرہ، سعدیہ دانش ، لیلیٰ کرن اور انیلہ جان، امینہ ولی اور افراء ولی ، فاطمہ سُہیل، مہرین شاہ ، شائستہ مدد اور شارستہ بیگ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں خود کو منوایا ہے۔
تمام طلبہ اور یوتھ کی طرف سے NSF گلگت بلتستان کو سراہا گیا اور آئندہ بھی ایسے پروگرام منعقد کرانے کی خواہش ظاہر کی گئی۔ آخر میں NSF گلگت بلتستان کے صدر کامریڈ احتشام علی نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔