چترال ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کا زیادہ تر عملہ گھر بیھٹے تنخواہ لے رہا ہے
چترال(گل حماد فاروقی) ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال اور جنگ بازار میں زنانہ اور بچوں کے ہسپتال میں مریضوں کو نہایت مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ بازار کا ہسپتال پچھلے دور حکومت میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہوا ہے ابھی چند ہی سال گزر گئے مگر ہسپتال کے ٹائلز اور فرش ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے بتایا کہ اس کا ٹھیکہ ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے ٹھیکدار کو آپس میں بندر بانٹ کرکے اس کا یہ حشر ہوا۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے یہ کام نہایت ناقص ہوا ہے مگر اس کے باوجود محکمہ صحت چترال کے ذمہ دار افسران نے ٹھیکدار اور سی اینڈ ڈبلیو کو کام کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔
کارکنوں نے کہا کہ اس ہسپتال کے نام پر بہت زیادہ تعداد میں عملہ بھرتی ہوا ہے جس میں زیادہ تر کاغذوں میں بونی، گرم چشمہ وغیرہ تبدیل کرایا گیا ہے اور زیادہ تر سٹاف گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں جو کسی ایم پی اے یا ایم این اے اور دیگر با اثر افراد کے سفارش پر بھرتی ہوے ہیں ان سے کوئی پوچھ بھی نہیں سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نو را سلام ایک نہایت ایماندار افسر ہے مگر اس کے حلاف ایک مافیا ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت حالات حراب کروارہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عملہ ان کی بات ماننے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے جنگ بازار کے بچوں اور گائنی وارڈ (ہسپتال) کے بیت الحلاء کی نشان دہی کراتے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں کم از کم 28 خاکروب بھرتی ہوئے ہیں مگر میں سے آٹھ بھی نظر نہیں آتے اور یہی وجہ ہے کہ ہسپتال کے زیادہ تر لیٹرین یا تو بند ہیں یا پھر استعمال کے قابل نہیں ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ ہسپتال کے وارڈ بھی ایک گندگی کا منظر پیش کرتا ہے۔
ایک مریض بچے کے تیماردار نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ بچوں کے وارڈ میں زیادہ تر خواتین اپنے مریض بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں مگر اس وارڈ میں گرم کرنے والی انگیٹی کے قریب مرد بیٹھتے ہیں اور وارڈ اردلی کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کو باہر نکالے کیونکہ غیر مردوں کی موجودگی میں خواتین اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتی۔ مزید براں اکثر بچے اُلٹیاں کرتی ہیں جس سے وارڈ گندہ ہوتا ہے جسے ہم خود صا ف کرتے ہیں اور سویپر (خاکروب) کا پتہ ہی نہیں چلتا صرف صبح کے وقت آکر معمولی سا صفائی کرنے کے بعد پھر غائب ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر نرسیں بھی اس ہسپتال میں ڈیوٹی نہیں کرتی۔ حالانکہ وہ اس ہسپتال کے نام پر بھرتی ہوئے ہیں اور تنخواہ یہاں سے لیتی ہیں مگر ا ن کو کاغذوں میں دوسرے جگہہ بھیجے گئے ہیں اب پتہ نہیں کہ وہ ہاں ڈیوٹی بھی کرتی ہیں یا پھر گھر بیٹھے تنخواہ لے رہی ہیں
انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض اراکین اسمبلی کے سفارش پر قرآن حافظ بھی خاکروب کے آسامی پر بھرتی ہوئے ہیں اور اب وہ لوگ کام کرنے کو تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر عملہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اور اگر ایم ایس ان کے حلاف کاروائی کرنا چاہے بھی تو وہ مافیا ایم ایس کے حلاف سازشیں کرتی ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے جنگ بازار ہسپتال میں ایک کوارٹر جل گیا جس کے بعد یہاں کی نرسیں ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں رہائش پذیر ہیں جس کی ایک طرف اگر مریضوں کو تکلیف ہے تو دوسری طرف حکومت یعنی ہسپتال کو بھی اس کا مالی نقصان پہنچتا ہے کیونکہ ان پراؤیٹ روم میں اگر مریض داحل ہو تو وہ اس کی ادائیگی کرتے ہیں اور ہسپتال کے فنڈ میں اضافہ ہوتا ہے مگر یہ نرسیں اس میں بغیر کسی ادائگی کے رہتی ہیں حالانکہ وہ سرکاری خزانے سے اپنا کوارٹر الاؤنس بھی لیتی ہیں مگر مفت میں ان پراؤیٹ روم میں رہتی ہیں
چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے وزیر اعلےٰ خیبر پحتون حواہ، وزیر صحت، سیکرٹری ہیلتھ، ڈی ایچ او، ایم ایس سے مطالبہ کیا ہے کہ ہسپتال کی بہتری پر توجہ دے اور جو سٹاف گھر بیھٹے تنخواہ لے رہی ہیں ان کو فارغ کرکے ان کے جگہہ مقامی اور ایماندار عملہ بھرتی کیا جائے تاکہ وہ مریضو ں کا خدمت کرے۔ نیز انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ بازار ہسپتال میں جو ناقص کام ہوا ہے اس کی تحقیقات کی جائے اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ساتھ ساتھ ٹھیکدار کو بھی قومی احتساب بیورو کے حوالہ کیا جائے تاکہ ان کے حلاف قانونی کاروائی کرکے ان سے فنڈ واپس لے جو انہوں نے ہڑ پ کیا ہے تاکہ آئندہ کوئی محکمہ اور ٹھیکدار قومی خزانے کو اس طرح بے دردی سے نہ لوٹے اور ناقص تعمیراتی کاموں سے دریغ کرے۔