کالمز

گلگت بلتستان کے نام چند اہم مسائل کے حوالے سے کھلا خط (عبدالجبارناصر)

عزت مآب جناب پیر کرم علی شاہ صاحب گورنر گلگت بلتستان
عزت مآب جناب شیر جہان میر صاحب نگران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان
عزت مآب جناب جسٹس(ر) سید طاہر علی شاہ صاحب چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان
عزت مآب سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کے قائدین ، صحافی ،عمائدین اور معزز عوام !

یہ بات قابل مسرت ہے کہ 2009ء میں انتظامی حکم نامے کے ذریعے قائم ہونے والی گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور اس کے نتیجے میں بننے والے پیپلزپارٹی کی حکومت نے محترم جناب سید مہدی شاہ کی سربراہی میں 12دسمبر 2014کو اپنی مدت مکمل کرلی اور گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر ہوا۔

10848769_887502417937777_2602783673226425622_oکسی بھی جمہوری نظام میں انتقال اقتدار کا عمل خوش اسلوبی سے طے ہونا اس کی بڑی کامیابی ہے یقیناًانتظامی حکم نامہ 2009ء کے تحت نگران حکومت اور الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کا بنیادی مقصد شفاف انتخابات کا 90دن کے اندر(مارچ میں) انعقاد ہے، لیکن موسمی حالات اور بعض انتظامی معاملات کو مدنظر رکھا جائے تو 90دن کے اندر(مارچ میں) انتخابات کا انعقاد کافی مشکل دیکھائی دیتاہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق بیشتراسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ 90دن کے اندر (مارچ میں)انتخابات کا انعقاد نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے اس لئے یقیناً ایک مرتبہ پھر انتظامی حکم نامے میں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کی مدت میں توسیع کرنی پڑے گی۔

جناب عالی!

بروقت صاف وشفاف انتخابات نگران حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس سے قبل اگر چند اصلاحات اور ضروری اقدام متعلقہ اداروں اور حکومت پاکستان کی مشاورت سے کئے جائیں تو یقیناً اس خطے کیلئے قابل تحسین عمل ہوگا ،جس کے فوائد نچلی سطحی تک عوام کو ملیں گے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) کسی بھی صاف وشفاف انتخاب کے لیے صاف وشفاف انتخابی فہرست اور اس خطے عوام کے لیے ووٹ کی سہولت فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان کی ایک چوتھائی (تقریباً4لاکھ سے زائد)آبادی معاشی مسائل اور دیگر مشاغل کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہے، جن کی اکثریت اس عظیم خطے کی سیاسی ،سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں سے کبھی لاتعلق رہی اور نہ رہ سکتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداداپنے ووٹ کے استعمال کے لیے اپنے علاقوں کار رخ کرتی ہے ۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں خطہ گلگت بلتستان کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد قومی، صوبائی ، ضلعی اور علاقائی سیاست میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے متحرک ہے ۔لیکن پاکستان میں2011-12ء میں شفاف کمپیوٹرائزڈ ووٹر زفہرست کی تیاری کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد 4لاکھ سے زائد افراد( ایک لاکھ کے قریب ووٹرز)کو انتہائی مشکل میں ڈالدیا گیا ہے ،کیونکہ ان کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقے یا پاکستان کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں یہ قانون پاکستان کے چاروں صوبوں ، فاٹا، وفاقی دارالحکومت اور گلگت بلتستان میں لاگو ہے جبکہ آزاد کشمیر کو اس سے مستثنیٰ قراردیاگیا۔

جب یہ ووٹر فہرست تیار ہورہی تھی اس وقت راقم(عبدالجبارناصر) نے اس وقت بھی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ صاحب کو خط کے اور مختلف اخبارات میں مضامین کے ذریعے عوامی نمائندوں کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی،مگر بدقسمتی سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور عوامی نمائندوں نے اس پر کوئی دلچسپی نہیں لی اور یوں یہ مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔دوسری جانب نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام سے بھی رابطہ کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ حکومت گلگت بلتستان اور الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کو شش کریں تو یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے ،کیونکہ آزاد کشمیر حکومت ، عوامی نمائندوں اور الیکشن کمیشن آزاد کشمیر کے سخت احتجاج پرخصوصی حکم نامے کے ذریعے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام ووٹرز(چار لاکھ سے زائد ) کومستثیٰ قرار دیاگیا، اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر کا کردار کشمیریوں کے لیے بہت اہم رہااور کشمیری قیادت کی کوشش سے ان کا یہ مسئلہ حل ہواور اب صورتحال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے ووٹرز کا اندراج آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں ووٹر زفہرستوں میں درج ہے ۔

جناب عالی !

گلگت بلتستان کی اس وقت قانونی ،آئینی اور عالمی پوزیشن وہی ہے جو آزاد کشمیر کی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں خطوں کے لیے الگ الگ معیارقائم کرنا یہ انصاف کے خلاف ہے ۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا افراد بیک وقت آزاد کشمیر اور پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق دونوں جگہ استعمال کرسکتے ہیں،لیکن گلگت بلتستان کے افراد کے لئے کسی ایک علاقے کا انتخاب کرنا ہوگا۔یہ معاملہ اب بھی حل ہوسکتاہے لیکن اس کے لئے آپ حضرات کی توجہ کی ضرورت ہے ،اگر آپ لوگ وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں تو” نادرا” کیلئے گلگت بلتستان کے ایک لاکھ کے قریب ووٹرز کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ماہ اورنہ ہی ہفتے درکار ہیں بلکہ یہ ساراعمل چند دنوں کا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لئے خطے کے انتخابی عمل کے حوالے سے یہ اقدام شاید زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو لیکن گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جو اس عمل سے متاثر نہ ہوا ہو لہذا اگر یہ مسئلہ حل ہوجاتاہے تو اس کے مثبت اثرات خطے کے اندر اور ملک کے مختلف حصوں میں گلگت بلتستان کی اکثریت محسوس کرے گی،اس پر آپ کی توجہ کی ضرورت ہے ۔

(2) حکومت پاکستان کی جانب سے 2009ء کے انتظامی پیکج کے بعد یقیناً گلگت بلتستان میں شفاف اور مناسب حلقہ بندی ہونی چاہیے تھیں تاکہ تمام طبقات کی مناسب نمائندگی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کے حل میں بھی مدد ملتی، لیکن جنرل نشستوں میں اضافے کے بجائے مخصوص نشستوں میں اضافہ کرکے صرف کام چلایاگیا ۔ جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں محرومی محسوس کی جارہی ہے اب متوقع انتخابات کے حوالے سے جو کوششیں جاری ہیں ان سے بھی یہی محسوس ہوتاہے کہ نئے حلقہ بندیوں یا نشستوں میں اضافے کے حوالے سے معاملات پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اس طرح یہ معاملہ مزید پانچ سال حل نہیں ہو سکے گا۔

جناب عالی!

گزارش ہے کہ صرف انتخابات کرانے پرتوجہ دینے کے بجائے خطے میں نئی حلقہ بندیوں اور نشستوں کے اضافے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان کے 7اضلاع کی آبادی 20لاکھ کے قریب ہے, جبکہ گلگت بلتستان کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی 2013کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے کی آبادی اس وقت 14لاکھ کے قریب ہے ,سچ تو یہ ہے کہ اصل آبادی 20لاکھ کے قریب ہی ہے۔ ضلع گلگت کی تقریبا 4لاکھ ستے زائد آبادی کے لئے3 نشستیں ،ضلع سکردوکی 5لاکھ سے زائد آبادی کے لئے 6نشستیں ،ضلع دیامرکی سوا 3 لاکھ سے زائد آبادی کے لئے4 نشستیں ،ضلع غذر کی ڈھائی لاکھ آبادی کے لئے3 نشستیں، ضلع گانچے کی ڈیڑھ لاکھ آبادی کے لئے3 نشستیں، ضلع ہنزہ نگر کی2لاکھ آبادی کے لئے 3 نشستیں اور ضلع استور کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ آبادی کے لئے 2 نشستیں مختص ہیں۔

جناب عالی!

یہ بات درست ہے کہ جمہوری نظام میں ارکان پارلیمان کا کام صرف قانون سازی ہوتاہے لیکن ترقی پزیر بالخصوص پاکستان ، بھارت اور قرب وجوار کے دیگر ممالک میں ارکان پارلیمان کا کام قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی عمل ہے, اگر معاملہ صرف قانون سازی کا ہوتا تو حلقہ بندی کے لیے معیار آبادی مناسب معلوم ہوتا ہے،لیکن جب بجلی گھر سے لیکر گلی کی نالی کی تعمیرو مرمت تک کا معاملہ ارکان پارلیمان کے ذمہ داری ہوتو پھر ایسے معاشرے میں صرف آبادی کو معیار بنانا انصاف کے خلاف ہے۔ اس لیے نئے حلقہ بندیوں کے لئے صرف آبادی کو معیار بنانے کے بجائے کثیر الجہتی معیار بنایا جائے مثلا 50 فیصد آبادی،25فیصد رقبہ اور25 فیصد پسماندگی کو بنیاد بناکر نئی حلقہ بندی کی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا اور عوام کو بھی فائدہ ملے گا۔ مزید یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلی کی نشستوں میں کم سے کم9نشستوں کا اضافہ کیا جائے جو کثیر الجہتی فارمولے کے مطابق تقسیم ہو اور اضلاع سے ضلع گلگت کی نشستیں 3سے بڑھا کر 5 ، ضلع سکردو کی نشستیں 6 سے بڑھا کر 8 ، ضلع دیامر کی نشستیں4 سے بڑھا کر5 ، ضلع غذر کی نشستیں 3 سے بڑھا کر4 ، ضلع استور کی نشستیں 2 سے بڑھا کر 4اور ضلع ہنزہ نگر کی نشستیں 3 سے بڑھا کر 4کردی جائیں۔ نشستوں میں اضافے اورمناسب حلقہ بندیوں سے خطے میں مذہبی ،لسانی اور علاقائی تنازعات کا مستقل خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے،کیونکہ ماضی کا تلخ تجربہ یہی بتاتاہے کہ خطے میں فسادات کی ایک بڑی وجہ سیاسی عمل دخل اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی کوشش رہی ہے۔امید ہے کہ آپ متعلقہ اداروں سے مشاورت کے نتیجے میں اس ضمن میں بھی خطے کے بہتر مفاد کے لیے اپنا کردار ادا کریںگے۔

(3) جیسا کہ آپ کے علم ہے کہ کسی بھی جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی ادارے ہیں جو کردار سازی ، تجربہ اور قیادت سازی کے ساتھ ساتھ بنیادی عوامی مسائل کے حل میں اہم کردار اداکرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جہاں پر بلدیاتی ادارے مشکل سے مشکل حالات میں بھی فعال رہے ہیں جبکہ پاکستان کی تاریخ میں باالعموم اور بالخصوص جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تاریخ انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں 2008ء میں بلدیاتی انتخابات ہونے تھے اور امید یہی تھی کہ قانون ساز اسمبلی کے ساتھ یا کچھ عرصہ بعد خطے میں بلدیاتی انتخابات ہوںگے لیکن ایسا نہیں ہوسکا یقینا اس کی ذمہ داری سید مہدی شاہ کی جمہوری حکومت اور جمہوری اداروں پر عائد ہوتی ہے اور حالات کا جائزہ لیاجائے تو مستقبل قریب میں بھی بلدیاتی انتخابات کے اثار دیکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔

جناب عالی!

بلدیاتی ادارے ہی ہیں جن تک ہرفرد کی رسائی ہوتی ہے اور نہ صرف نچلی سطح تک کے مسائل کے حل میں بلدیاتی نمائندے اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ حالات وواقعات اور اپنے اپنے علاقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے اور اہم مسائل حل کرنے میں بلدیاتی نمائندے انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے اعداد شمار کے مطابق 2013ء میں گلگت بلتستان میں 7 ضلعی کونسلیں ، 6 میونسپل کمیٹیاں اور 105یونین کونسلوں(انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال)تھیں اور 2008کی ایک رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان میں یونین کونسلوں سے ضلع کونسلوں تک 1200 سے زائد عوامی نمائندے صرف بلدیاتی اداروں میں ہی سرگرم تھے اور کئی خرابیوں کے باوجود خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے تھے، مگر سید مہدی شاہ حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز افسر شاہی کی نظر کردئے ، معلوم نہیں گزشتہ6 سال میں افسر شاہی نے یہ فنڈز کہاں اور کس کے کہنے پر استعمال کئے ہیں ؟ پورے خطے کا جائزہ لیاجائے تو اس فنڈز کے استعمال کے اثار کہیں پر بھی نظر نہیں آتے۔ اس لئے گزارش ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے ساتھ ساتھ جلد بلدیاتی انتخابات کیلئے اقدام کیے جائیں جو یقناً اس خطے کے مسائل کے حل کے لیے بہت اہم ہیں۔

(4)شفاف انتخابات کے لئے مناسب وقت کا انتخاب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ،اس لئے گلگت بلتستان میں 2015ء کے متوقع عام انتخابات کے لئے ایسے وقت کا انتخاب کیا جائے کہ تمام لوگ بآسانی ووٹ کا حق استعمال کر سکیں ،اس ضمن میں جون، ستمبر اور بہت ہی مناسب ہیں ۔

جناب عالی!

اولذکر تینوں کام سید مہدی شاہ حکومت اور قانون ساز اسمبلی و قانون ساز کونسل کے تھے مگر بد قسمتی سے اس پر توجہ نہیں دی گئی ،اس لئے اب یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔مجھے امید ہے کہ آپ تمام حضرات میری ان چند گزارشات پر توجہ دیکر کوئی مناسب حل تلاش کرنے میں کامیاب ہونگے ،جو اس خطے کے عوام کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا،اس ضمن میں میڈیا کا کردار بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر رہے ،امین ۔

والسلام علیکم عبدالجبار ناصر ۔۔ کراچی

روز نامہ دنیا کراچی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button