کالمز

بھارت کا کشمیر میں مذاکرات کا ڈھونگ

ڈاکٹر اعزاز احسن

چانکیہ کے پیروکارں کا طریقہ کار ہے کہ جب تمام مکرو فریب اور ظلم کے ہتھکنڈے ناکام ہوں تو مزاکرات کا لولی پاپ دیتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے یہ صرف وقت گزاری کا ایک بہانہ ہوتا ہے کشمیر میں بھارت کی چھ لاکھ قابض افواج ظلم ستم کے تمام حربے آزما چکی ہے لیکن آزادی کی شمع بجانے میں ناکام ہو گئی جو شمع کشمیر کے شہدا نے اپنے لہو سے جلائی ہے اسے کسی ظلم سے بجایا تو نہیں جا سکتا ہے ،دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آزادی کی تحریکیں نہ تو ظلم ستم سے ختم ہوتیں ہیں اور نہ ہی مکرو فریب اور دجل سے ٹھنڈی پڑتی ہے اور جہان لاکھوں آزادی کے پروانوں نے آزادی کی راہوں میں اپنی جانیں دیں ہوں وہاں ظلم کی سیاہ رات زیادہ طویل نہیں ہو سکتی ہے۔

کشمیریوں کی تحریک آزادی نے اب جو رخ اختیار کیا ہے اسے دبانا بھارت کے بس کی بات نہیں دنیا کے آزاد تجزیہ کاوں کا کہنا ہے کہ اس جدید تحریک آزادی کی جنگ کو سرد کرنا بھارت کے بس کی بات نہیں بھارت کو اب آزادی ہر صورت میں دینی ہی ہوگی اس میں بھارت کی بقا ہے اگر بھارت ایسا نہیں کرتا ہے تو یہ نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا ،لیکن کہتے ہیں کہ جس کے مقدر میں تباہی لکھ دی گئی ہو اس کی عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے سو بھارت کی بھی عقل کام کرنا چھوڑ چکی ہے اس لئے کھبی ظلم تو کھبی مکرو فریب سے آزادی کی تحریک کو سرد کرنا چاہتا ہے یہ بھارت کا ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ممکن نہیں ،بھارت اب ایک دفعہ پھر مزاکرات کی میز پر آکر کشمیر میں وقت حاصل کرنے کے موڈ میں ہے اس میں بھارت کا کوئی اخلاص نہیں بلکہ اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ظلم و ستم سے دبانا ممکن نہیں اس لئے مزاکرات کا جال بچھایا جائے اب تین برس کے وقفے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اچانک مذاکرات کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے

۔انڈین وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ حکومت نے مذاکرات کے لیے انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے جو ‘جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز تمناؤں کو سمجھنے کے لیے لوگوں سے بات چیت اور گہرے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت مسئلہ کشمیر کے تئیں سنجیدہ اور اسے حل کرنے کی پابند ہے حکومتی نمائندے کشمیر کے سبھی متعلقہ لوگوں سے بات کریں گے۔ تین برس قبل بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد مرکز نے علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بعد مظاہروں اور احتجاج کے درمیان سینکڑوں کشمیری نوجوان مارے جا چکے ہیں لیکن حکومت اپنی سخت پالیسی پر عمل پیرا رہی۔اب حکومت کی جانب سے مذاکرات کے اعلان پر حکومت اور حزبِ مخالف کی جانب سے ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

ریاست کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے مرکزی حکومت کے اس قدم کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ہی کشمیر کے مسئلے کے حل کا واحد راستہ ہے۔انہوں نے کہا ‘ کشمیر کے لوگ جن حالات میں ہیں ان میں بات چیت کا آغاز بہت ضروری ہے۔ بات چیت سے ہی لوگوں کی مشکلات دور ہوں گی۔’تاہم سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے طنز کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘کشمیر کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کر لینا ان سبھی کی شکست فاش کا غماز ہے جو صرف طاقت کے استعمال کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔عمر عبداللہ کے والد اور ریاست کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر دہلی کی حکومت ماضی میں جو کمیٹیاں بناتی رہی ہے ان کا کیا ہوا؟۔میں سمجھتا ہوں کہ بات چیت ایک اچھی چیز ہے لیکن میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اب تک جو کمیٹیاں بنائی جاتی رہی ہیں، ان کی جانب سے جو رپورٹس دی جاتی رہی ہیں انھیں پارلیمان میں پیش کیا جائے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ بات چیت شروع کرنا ایک اچھی بات ہے، لیکن کس سے بات کرنی چاہیے، حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے۔

سٹیٹ کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر کہتے ہیں، ‘تین سال سے بی جے پی کہہ رہی ہے کہ ہم ان سے بات کریں گے مگر ان میں سے بہت سوں سے نہیں۔’انھوں نے کہا کہ ‘ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ایک گول میز کانفرنس بھی کی اور اس میں تمام متعلقہ جماعتوں سے گفتگو کی، لیکن آپ کے سامنے ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اب اگر وہ آج بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ کون کرے گا؟ انہیں لوگوں کے نام لینے چاہییں۔کشمیر کے سیاسی تجزیہ کار، انڈین حکومت کی طرف سے مذاکرات کے اس اعلان پر کہتے ہیں کہ یہ انڈین حکومت کی طرف سے اس سخت موقف میں بدلاؤ کی نشانی ہے جسے حکومت نے گذشتہ تین سالوں میں کشمیر میں اپنایا ہے۔تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع نہیں ہوتی، کوئی بڑی امید نہیں کی جا سکتی۔بھارت ہزار مکرو فریب کرے ،ظلم ستم ڈھائے مکرو فریب کے جال بنے اب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ کشمیر اس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ کشمیر سے اپنی فوجوں کو نکال کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے لئے ماحول بنائے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button