کالمز

اے قائدِ اعظم تیرا احسان ہے

الواعظ نزار فرمان علی

الحمداللہ آج ہم سب بحیثیت پاکستانی قوم اس عظیم المرتبت ہستی کی سالگرہ منا رہے ہیں جس کی گراں بہا خدمات کے تمام پاکستان ممنون احسان ہیں۔جی ہاں ایک ایسی غیر معمولی شخصیت جس کے نصیب میں مالکِ قضا و قدر نے تخلیق پاکستان لکھا تھا۔یقیناًجس کی سحر انگیز قیادت ،فرشتگانہ خصلت،شب و روز کی ان تھک محنت و ثمر آور کاوشوں کی بدولت آج ہم ایک آزاد و خود مختار ملک کے شہری ہیں، جن کا تن و من اور دھن و آبرو پاکستان تھا جو بذات خود جیتا جاگتا پاکستان تھا۔اسی لئے آج وہ ہم سب کے سروں کا تاج ہے۔محسن ملت ،بانی پاکستان ،بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ ۲۵دسمبر۱۸۷۶ ؁ کو کراچی کھارادر میں وزیر مینشن میں پیدا ہوئے آپ کے والد جناح پونجا اچھی ساکھ ررکھنے والے تاجر تھے جو آپ کی ولادت سے چند برس پہلے ہی کاروبار میں توسیع کے لئے راجکوٹ سے کراچی منتقل ہوئے اور کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔جناب محمد علی جناح ؒ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، بھائیوں میں احمد علی اور بندے علی جو زیادہ مشہور نہیں ہوئے،مادر ملت فاطمہ جناح جنہوں نے زندگی کے ہر موڈ پر بہترین ساتھ دیا دوسری دو بہنیں مریم اور شیرین بھی غیر معروف رہی۔

آپ نے 1885 اور 1886 پرائمری سکول بمبئی میں پھر سندھ مدرسۃ اسلام اور کرسچن مشن ہائی سکول کراچی میں تعلیم پائی۔16 برس کی عمر میں اعلٰی تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان گئے وہاں لنکن ان سے بار ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔انگلستان جانے سے ایک سال پہلے1891 میں ایک رشتہ دار امی بائی سے شادی ہوئی جو انگلستان میں آپ کے تعلیی دور میں انتقال کرگئیں۔1918 ء میں بمبئی کے رئیس اعظم کی دختر رتی بائی سے شرع اسلام کے مطابق شادی ہوئی۔جو 1929 ء میں فوت ہوئی ان کے بطن سے ایک لڑکی دینا 5 اگست1919 کو پیدا ہوئی۔ہمارے عظیم رہنماء پچپن ہی سے بے پناہ محنت،تنددہی و جانفشانی کے پیکر تھے۔مسلسل کام سے نہ تھکنے والا انسان اپنی ناتواں صحت کے باوجود15 ،18 گھنٹے متواتر کام کرنا معمول تھا۔جس کی ایک یاد گار مثال18 سال کی کم عمری میں اپنی بیریسٹری مکمل کرنا آپ ہندوستان کے پہلے طالب علم تھے جن کو یہ خصوصی اعزاز حاصل ہوا اور یہ نیا ریکارڈ بنایا،علامہ اقبال کے شعر سے بھی ترجمانی ہوتی ہے

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۔

قانون کی اعلی ڈگری حاصل کرکے کراچی تشریف لے آئے یہاں پر کچھ وقت وکالت کرنے کے بعد بمبئی چلے گئے اور مختصر عرصے میں نامور و معتبر وکیلوں میں شمار ہونے لگا۔آپ اپنی لیاقت ،دیانت و اصول پسندی کی بناء پر پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقرر ہوئے ۔آپ نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کانگریس سے کیا بعد میں مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے اختلاف پر کانگریس کو خیر باد کہہ دیا اور 1913 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی ۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی جنگ ہر محاذ پر جر ات و دلیری سے مدلل انداز میں لڑی۔1916 میں مسلم لیگ کے لکھنو میں منعقدہ اجلاس میں صدر منتخب ہوئے یہ آپ ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان معاہد ہ طے پایا جو میثاق لکھنو کے نام سے مشہور ہے جس میں کانگریس مسلمانوں کے مطالبات ماننے پر تیا ر ہوگئی اور اکھٹے جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہارکیا۔اس عظیم تاریخی کارنامے کی یاد میں بمبئی کے شہریوں نے ایک ہال بنایا جو جناح ہال کے نام سے مشہور ہے میثاق لکھنو کے بعد آپ کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی کہا جانے لگا۔سن 1935 میں مسلم لیگ ہندوستان کا صدر منتخب کیا گیا اور مسلسل 12 سال تک بحیثیت صدر منتخب ہوتے رہے جس سے عوام اور اکابریں کا آپ سے والہانہ محبت اور بھرپور اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔آپ کی حکیمانہ قیادت نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کرکے ملک کے کونے کونے میں شاخیں قائم کیں جس سے جماعت میں تازہ روح داخل ہوگئی۔جب انگریزوں کو احساس ہو گیا کہ ہندوستان کی دونوں جماعتیں اپنے نظریاتی موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مذہبی، ثقافتی و تہذیبی بنیاد پر انہیں دو ریاستوں میں تقسیم کیا جائے چنانچہ 1940 ء میں قرار داد پاکستان کے ذریعے پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اور بالاآخر1947میں برطانوی حکومت کو اعلانِ پاکستان کرنا پڑا۔

ہمارے عظیم قائد آزاد وطن کے پاکیزہ خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے جنون کی حد تک وابسگی کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے بھی لگا سکتے ہیں کہ جب ڈاکٹروں نے آزادی سے چند سال قبل ایک موذی مرض کی نشاندہی کرکے مکمل آرام کا مشورہ دیا تو آپ نے اپنی انمول زندگی کی پرواہ کئے بغیر اپنی توانائیاں آخری سانس تک غیر معمولی محنت و نتیجہ خیز جدوجہد جاری رکھ کر اقوام عالم پرواضح کردیا کہ حقیقی لیڈر اپنی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے ،انہیں آزادی کا نورِ شعور عطا کرکے منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے اپنی پیاری سی پیاری چیز نچھاور کرنا باعث راحت و افتخار سمجھتے ہیں۔آزادی وطن سے کافی عرصہ پہلے سے متعدد مسلم لیڈاران و اکابرین نے کئی موقعوں پر بڑے عوامی اجتماعات میں آپ کو” قائد اعظم "کے منفر دو یگانہ لقب سے پکارا مگر اس کے ساتھ ایک اور دلچسپ روایت بھی مشہور ہے کہ خود مہاتما گاندھی بھی جو آپ کے مد مقابل اہم لیڈر تھے ان کا بھی دعویٰ تھا کہ میں جناح کو قائد اعظم کہنے والوں میں سرفہرست ہوں۔14اگست1947 ء کو پاکستان کے گورنر جنرل بنے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے پہلے دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی منتخب ہوئے لیکن آپ صرف ایک ہی اجلاس میں شریک ہوسکے کیونکہ محنت شاقہ اور خطرناک بیماری نے آپ کو گھیر لیا تھا اور آپ کچھ آرام کی غرض سے بلوچستان کے صحت افزاء مقام زیارت روانہ ہوئے اور 11 ستمبر 1948 کو رحلت فرمائی۔آپ کا مقبرہ شہر کراچی کے قلب میں تعمیر کیا گیا ہے۔

آپ کی شخصیت پر قلم اُٹھانے والے انگنت محقیقین وتاریخ نگاروں نے اپنی تحریرں و تقریروں میں ہمارے لئے بہت سی انمول باتیں محفوظ کی ہیںآپ اکثر طالب علموں کو پرزور الفاظ میں فرماتے تھے کہ میں پیدائشی مسلمان ہوں،اور میں ایک مسلمان کی حیثیت میں وفات پاؤنگا،جہاں آپ صاف ستھرے کھرے مسلمان تھے اور باقاعدہ قرآن انگریزی ترجمے کے ساتھ پڑھتے تھے۔آپ کی تقریروں میں جابجا قرآن و حدیث کے اقتباسات ملتے ہیں آپ نے مختلف موقعوں پرا پنی تقریروں میں کہا کہ ہمارے رسول اللہﷺ عظیم رول ماڈل ہیں۔آپ ﷺ نے بحکمِ خدا نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے مذہب اسلام کی رہنمائی فرمائی بلکہ دنیا کے سب سے بڑے قانون دان تھے ہماری نجات اسی میں ہے کہ آپ ﷺ کے لافانی اصولوں سچائی ،دیانت داری ،مساوات ، برداشت و رواداری کی بنیاد پر تشکیل دیں اور اس بات پرہمیشہ زور دیا کہ تم میں سے ہر فرد خواہ اس کارنگ سفید یا سیاہ،کسی فرقے ،کسی طبقے،تہذیب و تمدن اور دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق ہو بہر صورت پاکستان کا باشندہ اور شہری ہوگا اور سب کے حقوق اور مراعات برابر ہونگے۔گویا اس عظیم اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کی بنیادوں میں اسلامی اقدار کی روح شامل ہوگی۔آئیں آج کے اس یوم سعید کے موقع پرہم تمام پاکستانی اللہ اور اسکے پیارے رسول ﷺکی تعلیمات کی روشنی میں اپنے قول فعل کو ٹٹولنے کی کوشش کریں، سرزمیں پاک سے تعلق رکھنے والے زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد ،عظیم اسلاف بلخصوص قائد اعظم کے فرمودات ومثلِ شمع زندگی کے خطوط پرگامزن رہتے ہوئے سندھی پنجابی ، پٹھان ،بلوچی گلگتی و کشمیری اور بین المسلکی و سماجی امتیازات سے بالاتر ہوکرایک سچے اور مخلص پاکستانی ہوکر سوچیں ہم یہ نہ کہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے پیارے پاکستان کو کیا دیا ہے اور قائد کے بتائے ہوئے رہنماء اصولوں یقین محکم ،اتحاد اور تنظیم کی روشنی میں کام کام اور کام کے ذریعے دنیا میں اپنا اور پاکستان کا نام اونچا کرنا ہے۔آمین!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button