ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
کسی قوم میں جب بے بسی اور ضعیفی تقدیر کا نام لیکرمسلط ہوتی ہے تو پھر ہر تدبیر ناکامی کو ہمنوا بنا لیتی ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام نے انقلاب گلگت کے بعد ہی اپنی نیت اور شعور کو فروخت کر دیا تھا جس کے سبب دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہمارے عوام ظلم ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی اُسے روکنے کی ہمت نہیں رکھتے۔آج امام حسین ؑ کا وہ تاریخی جملہ یاد آتا ہے کہ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اُٹھو گے اُتنا ہی ذیادہ قربانیاں دینی پڑے گی بلکل یہی صورت حال میرے ارض وطن کا ہے جہاں کے عوام ظلم کو نظام سمجھ کر قبول کرتے ہیں غلامی کو شعور سمجھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں جس کے سبب یہ خطہ ایک طرف معاشی ،تعلیمی اور اقتصادیلحاظ سے جمود کا شکار ہے تو دوسری طرف تمام تر قربانیوں کے باوجود ریاست کے عوام سیاسی حقوق سے محروم ہے ایسے میں اگر کوئی اُٹھ کر ریاست کے نگرانوں سے حق دینے کی بات کریں تو انکی قوت برداشت کا پارہ چڑھ جاتا ہے اور حق مانگنے والوں کے خلاف غیرآئینی دفعات کی لائن لگ جاتی ہے تاکہ دوسروں کیلئے عبرت بن جائے۔ڈاکٹر زمان خان صاحب جن کو میں بہت ہی قریب سے جانتا ہوں وہ جس طرح پیشے کے لحاظ سے محترم ہے بلکل اسی طرح مزاج میں بھی ایک معتدل اور منفرد ہونے کے ساتھ سیاسی اور صحافتی حوالے کو انتہائی سرگرم انسان ہے ۔ جب ہم اُن سے بات کرتے تو یہی کہتا تھا یارا اپنے لئے بہت کچھ کیا ہے مجھے اب قوم کیلئے کچھ کرنا ہے کیونکہ میرے قوم کو مُلاوں اور مقامی جاہلوں نے آج تک استعمال کرکے خود فائدہ لیتے رہے ہیں مُلاوں کی اس حرکت نے دیامر کی سرزمین کا نام بدنام کر کے رکھ دیا میں چاہتا ہوں کہ میرے قوم کو کھویا ہوا مقام اور شناخت دوبارہ مل جائے اور یہاں کے عوام کو وہ حقوق دلائیں جو ریاست میں رہنے والوں کا حق بنتا ہے۔میں نے کئی بار کہا سر گلگت بلتستان میں سیاست کرنے کیلئے اُنکے جیسا بننا پڑتا ہے جب تک مخالف فرقے اور پارٹی کیلئے عوام میں زہر نہیں اُگالتے کامیابی ممکن نہیں تو کہنے لگے تم کو معلوم نہیں کہ یوتھ کا میرے اوپر کتنا پریشر ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ دیامر کے یوتھ میں لیڈر شب کی کمی ہے جسے میں اپنی تمام تر مراعات اور آمدنی کو قربان کرکے پورا کرنا چاہتا ہوں بس تم میرے لئے دعا کرتے رہو کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ ریاستی ادارے مجھ پر بھی کوئی جھوٹا مقدمہ نہ بنا ئے اگر ایسا ہوا تو تم سب نے میرے مشن کو لیکر آگے جانا ہے اس قوم کو یکجا رکھنا ہے مذہب مسلک کا نعرہ لگا کر ووٹ مانگنے والوں کا ہمشیہ کیلئے قلع قمع کرنا ہے بس تم میرے مشن کو سمجھو اور اپنے سوچ کو اسی طرح ہمشیہ بلند رکھو چاہئے دنیا کچھ بھی کہے قومی حقوق کیلئے قلمی جہاد جاری رکھنا ہے چاہے کوئی اخبار شائع کرنے یا نہ کرے ۔انکی ان سب باتوں کا میں نے بھی روائتی انداز میں سر ہلا کر جی سر کہتا رہا لیکن جب خبر ملی کہ ڈاکٹر زمان خان ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگریز تقریر کرنے کے جرم میں گرفتار کرنے کے بعد عوامیپریشر پر رہائی ملی اور بعددوبارہ گرفتار کرکے ریمانڈ پر بیج دیا گیا، یقیناًمیرے دکھ کا مقام تھا ۔کیونکہ اُنہوں نیجن باتوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا وہی سب کچھ ہوا وہ بھی صرف عوامی حقوق کی بات کرنے کے جرم میں ۔اب میرا ریاستی اداروں کے سربراہان سے سوال ہے کہ آخر کب تک گلگت بلتستان میں قومی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے والوں پر اسطرح کے مقدمات چلیں گے ؟
کیا ریاست سے غداری وہ نہیں جو ریاست میں عوام کے نام پر لوٹ مار کرے قتل غارت کرے؟ یا اُنہیں ریاست نے سند دے رکھی ہے کہ جو چاہئے کر لو بس حقوق کی بات نہ کرنا کیا پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر جو بڑے بڑے اینکرز ریاستی ادروں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال نہیں کرتے؟ کیا وفاقی وزرا ء جو میڈیا پر بیٹھ کراپنے ہی ملک کے خلاف بیانات دیکر عوام میں اشتعال پیدا کرتے ہیں؟ یا اسلام آباد کی دامن میں بیٹھ کر ریاست کی رٹ کو چیلنچ کرنے والے محب وطن ہیں؟ عجیب صورت ہے ہے ایسا خطہ جو آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بھی نہیں لیکن پاکستان کیلئے قربانیان دوسرے آئینی صوبوں سے بڑھ ددینے کے باوجودبھی اس قوم کے رہنما وں کو قومی حقوق کے بات کرنے کی وجہ سے ریاستی عوام کی بے حسی اور لاشعوری کے سبب غدار کہلاتے ہیں۔ اگر غداری کا کوئی میعار نہیں ہوتا تو سب سے پہلے پرویز رشید پر یہ مقدمہ چلنا چاہئے کیونکہ کسی قسم کا حقوق نہ ملتے ہوئے بھی اس ریاست کے عوام آج تک خود کو مکمل پاکستانی سمجھتے رہے تھے لیکن میڈیا پر انکے اعلان نے گلگت بلتستان کے عوام میں بے چینی پھیلائی اور مزید کہیں تو گلگت بلتستان کے اُن نام نہاد سیاست دونوں پر مقدمہ چلنا چاہئے جو آج تک عوام کو صوبے کے نام پردھوکہ دیتے رہے ہیں۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان کو اظہار رائے کا بنیادی حقوق ملنا مہذب معاشرے کی علامت ہے کسی کی تقریر کے کچھ تلخ جملوں سے کوئی غدار نہیں بنتا لیکن اُس آڑ میں مقدمہ چلانے میں نگران حکومت کی طرف انتقامی سوچ کی آمیزش کا شامل ہوناخارج از امکان نہیں کیونکہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ معاشرے میں ایسے لوگوں کو فیصلہ سازی کا موقع ملے جو اُنکی روزی روٹی کیلئے مسلہ بن جائے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں جو باہمی روادری اور قومی ہم آہنگی کو پسند نہیں کرتے
۔لہذا اب دیامر کے عوام کو سوچنا ہے کہ ڈاکٹر زمان کی قربانیوں کا کیا صلہ دیتے ہیں جنہوں نے عوام کیلئے ایک بڑی قربانی دیکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کو تسلیم کرتے ہوئے عہد کیا ہے کہ قومی حقوق پر کبھی سودا بازی نہیں ہونگے یہی سوچ ہمارے عوام کا بھی ہونا چاہئے قومی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر عوام خواب غفلت کی نیند سوجائے اور پھر وہی پُرانے لوگ میدان سیاست میں عوام سے ووٹ لیکر عیاشی کریں گے۔اب وقت آپونچا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام باباجان اور ڈاکٹر زمان جیسے قومی لیڈران کو سپورٹ کریں ورنہ ہمارے سامنے حیدر شاہ رضوی کی مثال ہے جنہیں بلتستان کے عوام نے قبول نہیں کیا لیکن آج جب وہ موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو انہیں قومی ہیرو قرار دیا جارہا ہے قوم کے نوجوان ہر چوراہے پر کھڑا ہوکر اُنکی زندگی بچانے کیلئے عوام نے بھیگ مانگ رہے ہیں لہذا وقت گزرنے سے پہلے عوام کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہ ہوا اور داریل کے عوام نے ڈاکٹرزمان کو تنہا چھوڑ دیا تو یہ لوگ بھی کوفی کہلائے گا جنہوں نے امام حسین ؑ کو یزیدیت سے نجات کیلئے خطوط لکھ کر کربلا کے میدان میں بُھلا کر جب امتحان کا وقت آیا تو رئیس الوقت کی خوف سب لوگ ظلم کے خلاف قیام کرنے بجائے مصلحت کا شکار ہوگئے۔اللہ گلگت بلتستان کو عوام کو شعور دیکر قومی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کا ساتھ دینے کی توفیق عطا کرے ۔امین