کالمز

وزیر ہمایون بیگ 

تحریر: ظفراقبال

برصغیر پاک و ہند میں حقیقی ترقی کا آغاز انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا۔ ان سے قبل کئی دہائیوں تک مغل، لودھی، غلام، خلجی اور تغلقوں نے حکومت کی، مگر ان ادوار میں سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہو سکی۔ اسی دوران یورپ میں سائنسی ایجادات پر کام ہو رہا تھا، اور صنعتی ترقی کے لیے وسائل کی تلاش جاری تھی۔ ان وسائل کی کھوج میں انگریز برصغیر تک تجارت کے بہانے پہنچے۔

انگریزوں نے اپنے حمایتی لوگوں کی مدد سے، جو مغلوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ چکے تھے، برصغیر کو آہستہ آہستہ زیر نگیں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس پیشرفت میں انگریزوں کا ساتھ دینے والوں کو نہ صرف انعامات سے نوازا گیا بلکہ جاگیروں اور مختلف خطابات سے بھی نوازا گیا، جن میں خان صاحب اور خان بہادر شامل تھے۔

خان بہادر کا خطاب ان افراد کو دیا جاتا تھا جو اہم معرکوں میں بہادری کا مظاہرہ کرتے۔ یہ خطاب ہر عام و خاص کو نہیں دیا جاتا تھا۔

انگریزوں کے برصغیر میں قدم جمانے کے ساتھ ہی زار روس نے بھی انڈیا کو مسخر کرنے اور انگریزوں کو بے دخل کرنے کرنے پر غور و خوض شروع کی، کیونکہ زار نے بہت محنت  کے بعد منگولوں سے آزادی حاصل کی تھی۔

پیٹر دی گریٹ، جو خاص طور پر روسی قومیت کا حامل تھا، وسطی ایشیائی ممالک میں وسائل کی فراوانی، خاص طور پر اپر پامیر میں دریائے اوکزس کے وادیوں میں سونے کے ذخائر کی موجودگی سے بے چین تھا۔ پیٹر دی گریٹ اپنی موت 1725 تک انڈیا کو مسخر کرنے کی پالیسی کو عملی شکل نہ دے سکا۔

پیٹر کی جانشین کیتھرین دی گریٹ نے اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ کیتھرین کی حکومت میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، لیکن برصغیر تک رسائی کا مشن کامیاب نظر نہیں آ رہا تھا۔

1801 میں کیتھرین کے جانشین پاول نے برصغیر پر براہ راست حملے کے لیے نپولین کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی، لیکن جون 1812 میں نپولین کی گرینڈ آرمی نے روس پر حملہ کر کے تباہی مچائی، جس سے برصغیر میں انگریزوں نے سکون کا سانس لیا۔

برطانوی مفادات کو نقصان پہنچانے والی روسی پالیسیوں نے انگریز سرکار کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ایک روسی کتے کی لداخ میں موجودگی نے ان کے اندیشوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ مارکوف نے روسی جاسوسوں کی موجودگی کی اطلاع برطانوی حکام کو دی، جس کے بعد ایک نئے کھیل کا آغاز ہوا۔

انگریزوں نے بحث شروع کی کہ زار ہندوستان پر حملے کے لیے کن راستوں کا استعمال کرے گا۔ اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ ہندوکش کے درے حملوں کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں، جس کی کھوج کے لیے مختلف برطانوی جاسوس بھیس بدل کر ان علاقوں میں آئے۔

انگریزوں کے لیے یہ بھی تشویش کا باعث تھا کہ لداخ لیہ سے گزرنے والے تاجروں کو ریاست ہنزہ سے خطرات لاحق تھے، جہاں قافلے لوٹنے کا ایک قدیم رواج تھا۔ انگریزوں نے سوچا کہ اگر ہنزہ والے لداخ تک پہنچ سکتے ہیں تو یہ خفیہ راستے روسی بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اس دور میں گلگت بلتستان کی سرزمین روس اور برطانیہ کی گریٹ گیم کا مرکز بننے والی تھی، اور اس کا آخری معرکہ دسمبر 1891 میں نگر کے نلت اور تھول قلعے میں لڑی گئی۔ یہ جنگ بروشو اقوام کی جنگ تھی، نہ کہ ریاست ہنزہ و نگر کی۔ یہ ایک عظیم طاقتوں کی جنگ تھی، جو دسمبر میں لڑی گئی تاکہ زار کی طرف سے کوئی جنگی امداد نہ پہنچ سکے۔

اس جنگ میں خان بہادر وزیر ہمایون بیگ کا کردار اہم تھا، اور ان کو اس جنگ میں برطانوی حکام کا ساتھ دینے پر خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ تاہم، گلگت بلتستان اور خاص طور پر ہنزہ و نگر میں انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

یہ جنگ دو ممالک کے درمیان لڑی گئی، اور اگر وزیر ہمایون بیگ بھی زار کا ساتھ دیتے تو ممکنہ نتائج مختلف ہوتے۔ نلت قلعے کے محاصرے کے دوران، جب مایون قلعے سے فائر ہوئی تو انگریز افسران خوفزدہ ہوئے کہ شاید ان کے پاس روسی ہتھیار ہیں۔ جس پر ہمایون بیگ پر یہ کہنے کا الزام ہے کہ "میرے بھائی کے پاس تین کارتوس تھے ایک فائر ہوا دو باقی ہیں۔

وزیر ہمایون بیگ کے والد، اسد اللہ بیگ نے ریاست کی استحکام میں بے پناہ قربانی دی، اور انہوں نے علی آباد کی آبادکاری میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کے خاندان نے ہمیشہ ریاست کی استحکام میں کلی کردار ادا کیا۔

1889 میں میجر بڈلف کے بعد، کرنل ڈیورینڈ گلگت میں تعینات ہوئے اور وزیر ہمایون بیگ سے ملاقات کی، جس میں ریاست ہنزہ کے حوالے سے طویل گفتگو ہوئی۔ کرنل ڈیورینڈ نے وزیر کی شخصیت کی تعریف کی، اور انہیں جلد گلگت پہنچنے کا مشورہ دیا۔

دسمبر 1892 میں ہنزہ نگر پر حملے میں وزیر نے متحدہ فوج کے ساتھ شرکت کی اور انگریز افسران کی ہدایات پر عمل کیا۔ نلت قلعے میں جنگ کے بعد، مفتوح فوج نے وزیر کو حکمرانی کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے اسے یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ "میں بروشو ہوں، ہنزہ والے مجھے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔”

وزیر ہمایون بیگ نے 1895 میں جنگ چترال میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہ اہم شخصیت بیسویں صدی کے وسط میں دار فانی سے کوچ کر گئی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button