حسنِ صباح ایک حقیقت سوا فسانے
موجود ہ دور میں پاکستان سمیت اکثر مسلمان اکثریتی معاشروں میں دہشتگردی اور انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے ہر جانب قتل وغارت گیری اور خون ریزی کی وجہ سے لاکھوں انسان ناکردہ گناہوں کی بھینت چڑھ کر ابدی نیند سو چکے ہیں جبکہ لاکھوں زندگی بھر کے لئے اپاہچ ہوگئے ہیں ایسے حالات میں دانشور اس ساری صورتحال کا تاریخی پس منظر پیش کررہے ہیں بالخصوص تاریخ سے متعلق افسانوی ادب کا مطالعہ کرکے ان خود کش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار گیارویں صدی عیسوی میں فارس میں جاہ وجلال سے حکومت سنبھالنے والے حسن صباح سے جوڑتے ہیں
بلاشبہ حسن صباح تاریخ کا سب سے متنازعہ کردار ہے جن کے ماننے والے انہیں عظیم راہنما جبکہ نظریاتی مخالفین اسے ایک آفت کے طورپر لیتے ہیں جنہوں نے عظیم سلجوقی حکمرانوں کے خلاف فدائیں کے ذریعے جنگ وجدل کا بازار گرم رکھااس کی بنیادی وجہ قلم کاروں کا تاریخی حقائق کو مسخ کرکے افسانوی انداز سے پیش کرنا ہی ہے حسن صباح اورموجودہ دہشتگردی کو ملانے والے دانشوروں میں سے اکثریت کے ماخذ عبدالحلیم شرر کااردو زبان کے مشہور تاریخی ناول ’’فردوس برین ‘یا پھر ’’الموت ‘‘جیسے افسانے ہیں اس کے علاوہ انگریزی زبان میں1990ء میں لکھا گیا ناول Samarqand اور مارکوپولو کے سفر نامے کو اس سلسلے میں سب سے مستند تصانیف سمجھ کر انکا مطالعہ کرکے رائے قائم کی جاتی ہے ۔ البتہ مختلف فارسی اور مغربی دانشوروں نے جدید دور میں سائنسی انداز سے حسن صباح اور الموت پر اسماعیلیوں کی 167سالہ دورِحکومت پر تحقیق کی ہے ان مصنفیں میں سے ایک نامور پاکستانی شاعر اور ادیب جون ایلیا نے بھی حسن صباح کی سوانح عمری لکھا ہے لکھتے ہیں ۔’’تاریخی حقیقت کو افسانہ بنا دینے اور افسانے کو تاریخی حقیقت کے طورپر پیش کرنے کا رجحان ایک ایسا رجحان ہے جس کا مظاہرہ تصنیف وتالیف کی دنیا میں اکثر ہوتا رہا ہے یہ رجحان دراصل لکھنے والوں کی اس کوشش اور پڑھنے والوں کی اس خواہش سے جنم لیتا ہے کہ حقیقت اور واقعیت میں داستانوں کی سی دلچسپی اور حیرت افرینی کا عنصرتخلیق وتلاش کیاجائے اعجوبہ پسندی کا یہ رجحان افسانے کوحقیقت اورحقیقت کو افسانے میں بدل د یتا ہے یہ طرز عمل تاریخ اور داستان دونوں کے ساتھ سخت ظلم اور ناانصافی ہے‘‘۔ ’’ جو تحریر یں حسن بن صباح کے بارے میں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثر اس طرز عمل کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں حسن بن صباح کو مختلف تصنیفات اور تذکروں میں قلم کی قابل داد روانی کے ساتھ ایک ایسے خون آشام عفریت کے طورپر پیش کیا گیا ہے جو مسلم معاشرے کے بیش بہا عناصر کو فنا کردینا چاہتا تھا اور جس کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ اپنے’’ فدائیوں‘‘ کے ذریعے قتل اور دہشت گردی کا طوفان برپا کرکے اپنا اقتدار مسلط کردے بعض اہل قلم نے اسے’’ ملحد‘‘ اور’’ بے دین‘‘ ٹہرایا ہے ان کے خیال میں یہ’’ ملحد‘‘اور’’ بے دین ‘‘اپنے گمراہ کن خیالات کو فریب کاری ،شعبدہ بازی یا خنجر کے آزادانہ استعمال کے ذریعے پھیلانا چاہتا تھا اور اسے جو بھی کامیابی اور حمایت نصیب ہوئی وہ محض اس لئے کہ وہ ایک ’ساحر ‘تھا او ر لوگوں کو اپنے سحر کے ذریعے اپنے خیالات کا حامی اور اپنا فدائی بنا لیتا تھا گو یا مسلم تاریخ کا وہ باب جو حسن اور اس کی تحریک سے متعلق ہے محض جادوگری کا نتیجہ ہے ۔
اس کے برعکس ایک گروہ اسے نکوکاری ،حرمت اور عظمت کا ہالہ پہنایا ہے اگر ان تمام باتوں کاکوئی بھی مفہوم ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مصنفین نے حسن کے بار ے میں خاطر خواہ مطالعہ کئے بغیر اپنی رائے کے اظہار میں غیر ذمہ دارانہ جلد بازی سے کام لیا مثلاََ ڈاکٹر احمد امین مصری ایسے ممتاز مصنف نے حسن کو حضر ت علیؓ کی اولاد سے بتایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل قلم نے حسن کے باب میں قلم فرسائی کرتے ہوئے کتنی بے احتیاطی کا ثبوت دیا ہے وہ حسن سے متعلق تاریخی حقائق اور واقعات کا جائزہ لئے بغیر افواہوں کو حقیقت کا مرتبہ دیئے ہیں۔
حسن کی وفات کو تقریباََ نو سو برس گذر چکے ہیں لیکن نزاری اسماعیلیوں کا یہ عظیم المرتبت اور ذہین داعی اب بھی مسلمان مصنفوں او ر مورخوں کے درمیان ایک نااختتام پذیربحث کا موضوع بنا ہوا ہے یہ لوگ ا سکے بارے میں آج تک کوئی اطمنان بخش بات نہیں کرسکے مصنفوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے تعصب سے بلند ہونے کی کوشش کی ہے مگر یہ کہ انہوں نے واقعات کو محض سیاسی زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے وہ حسن کے اعمال اور مساعی پر ایک مخصوص انداز سے نظر ڈالتے ہیں اور ان واقعات کاتجزیہ اور توجیہہ سیاسی انداز میں کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حسن نے جو کچھ کیا وہ اس دور کے سماجی نظام کو بدلنا او رعباسی اور سلجوقی اقتدار کو ختم کرکے ایک سیاسی انقلاب برپا کرنا تھا گویاحسن فقط ایک سیاسی راہنما تھا او اس کی ساری کوششیں سیاسی نوعیت کی تھیں اب رہا اسماعیلی مسلک اور اسماعیلیوں کے نزاری گروہ کی دعوت تو یہ وہ لبادے تھے۔ جو اس نے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے اوڑھ رکھے تھے وہ جانتا تھا کہ عوام کو حقیقت او رصداقت کی بجائے مذہبی جذبات کے ذریعے زیادہ آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کے خیال میں اس نے مصر کے فاطمی خلیفہ حضرت امام مستنصرباللہ کے بڑے فرزند نزار کو امام مستور قرار دیا اور نزاری اسماعیلیوں کو اسلام کے ظہو ر پر ایک مثالی مستقبل اور مثالی معاشرے کی امید دلائی۔(جاری ہے )