کالمز

عنایت اللہ شمالی کے نام

تحریر:شمس الحق نوازش غذری 

یہ دنیاکی واحد خاتون تھیں۔ جس کے گھرمیں بیسیوں لوگ یوں سرجھکائے کھڑے رہتے تھے ۔ جیسے انتہائی فرمانبرداربیٹے ماں کی محبت میں دست بدستہ کھڑے رہتے ہیں۔ اُس کی بینائی کمزور ہوچکی تھی۔ سماعت بھی متاثر ہوئی تھی۔ اسے دل کاعارضہ بھی لاحق تھا۔ وہ دمہ اور کھانسی کی مرض میں بھی مبتلا تھی۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی عارضے اسے لاحق تھے۔ اس کی خدمت میں مامورلوگوں میں سے کوئی ان کے لئے کھانے کی انتظام میں مصروف ہوتا تو کوئی ان کی بوٹ پالش کرنے اور کپڑے استری کرنے میں لگا رہتا۔ کسی کوان کے ادویات کی فکرہوتی تو کسی کو ان کی پسندیدہ مشروبات اور پھل فروٹ کے اہتمام کاخیال رہتا۔ لیکن انتہائی قابل ذکربات یہ ہے کہ اس 109سالہ بڑھیا سے ان افرادکا کوئی روحانی رشتہ تھا اور نہ ہی کوئی خونی۔۔۔۔۔یہ خاتون کسی کی مذہبی پیشوا تھیں اورنہ ہی سیاسی۔۔۔۔اس بڑھیاکو خاتون اول کادرجہ حاصل تھا اورنہ ہی یہ خاتون کسی بادشاہ کی ملکہ تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود پھربھی کوئی نہ کوئی وجہ تھی کہ دنیاکے اس منفردخاتون کو تمام انسانوں میں دنیاکااہم ترین فرد اور وی آئی پی کادرجہ حاصل تھا۔یہ خاتون نیپال کی تھیں اور ’’سومہ دیوی‘‘نام سے اس کی شہرت آسمان کی بلندیوں کوچھورہی تھی۔ ’’سومہ دیوی‘‘کے گھرمیں 20بڑے اداروں کے کارکن ہروقت موجودرہتے تھے۔ کوئی ان کے نہیب بدن سے پرانے گیتوں کے سُرنکالنے کی تگ ودومیں رہتا توکسی کوان کے خیالات سمیٹ کر محاورات اور ضرب الامثال تلاش کرنے کی فکردامن گیررہتی ۔ کسی کے ذمہ میں قصے کہانیاں سنناتھا توکسی کواس کی ضعیف یادداشت میں سے افسانے تلاش کرنے کاجنون سواررہتا۔یوں دنیاکے شہرت یافتہ اداروں کے اہم کارکن اور عہدیدار اس کی گفتگو سے فیضیاب ہونے کے لئے گفتگو کے عنوانات بھی آپس میں تقسیم کررکھے تھے۔ اس عمرمیں پہنچنے والے اکثرانسان اپنے جگرگوشوں کے منہ سے دو بول کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں اس جیسے نانیوں اور دادیوں کے ساتھ چند جملوں کی تبادلے کے لئے کسی کے پاس کوئی وقت نہیں۔ ایسے عالم میں یہ دنیاکی خوش قسمت خاتون تھیں۔ جن سے نہ صرف لوگ گفتگو کیاکرتے تھے بلکہ ان کی گفتگو کو تاریخ کاحصہ بنانے کیلئے ریکارڈبھی کیاکرتے تھے۔ 109سالہ ’’سومہ دیوی‘‘ دادی اماں اپنوں سے لیکر غیروں کی محبت اور توجہ کا مرکز اس لئے بنی تھی کہ ان کے وجودمیں’’ دیورا‘‘نامی زبان سانس لے رہی تھی اوردنیامیں’’ دیورا‘‘زبان کی بقاء کاذریعہ یہی واحد خاتون رہ گئی تھی۔ کیونکہ اس کی موت کے ساتھ ہی دنیامیں بولی جانے والی ’دیورا‘زبان بھی دم توڑنے والی تھی۔

یوں دنیاکے مختلف رفاہی تنظیموں کے ہزاروں کارکن لسانیات کے سینکڑوں ماہرین کروڑوں ڈالروں کا انبار لگاکراس بڑھیاکی زندگی کی آخری دم تک دیورا زبان کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ مختلف رفاہی اداروں اور لسانیات کے ماہرین کاخیال تھا کہ سومہ دیوی کی دنیاسے رحلت کے بعد دنیامیں سومہ دیوی جیسی لاکھوں بڑھیائیں توموجودہونگی لیکن دیورازبان کی سانس نکلنے کے بعد دنیامیں دیوراجیسی کوئی زبان نہیں ہوگی۔ اس لئے سینکڑوں رفاہی ادارے ،درجنوں اشاعتی فرم اور کئی یونیورسٹیاں اس بڑھیاکی پشت پر کھڑی تھیں۔ بلاآخر سومہ دیوی کی روح پرواز کرگئی اور دیورا زبان بھی اپنی زندگی کی بازی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہارگئی۔ کیونکہ دنیاکی تاریخ میں موت اور زندگی کی جنگ میں شکست ہمیشہ زندگی کوہی ہوئی ہے۔ نیپالی عوام نے سومہ دیوی کو قبرمیں اور دیورا کو لیبارٹری میں دفنانے کے بعد غمزدہ دل کی تسکین کے لئے دنیاکی طرف دیکھ لیا توساری دنیانے بھی دیورازبان کی موت پر عالمی طورپر ماتم کیا۔ کیونکہ سومہ دیوی کی بجائے دیورازبان کی موت پر عالمی طور پر آنسوبہانا اس لئے بھی مقصود تھا کہ دنیامیں سومہ دیوی جیسی لاکھوں بڑھیائیں موجودتھیں۔لیکن دنیاکے 6ہزارزبانوں میں نیپال کے دیورازبان کی طرح زبان کا کہیں وجود نہیں تھا۔

جی ہا ں ! اس سال بھی 21فروری کو ہم نے حسب معمول مادری زبانوں کاعالمی دن منایا ۔ریڈیواور ٹیلی ویژن میں پروگرام کئے ، لوگوں کے خیالات سنے، ماہرین سے رائے لئے ، سیمینارزمنعقدکئے۔لیکن گلگت بلتستان میں بولی جانے والی مقامی زبانوں کے مستقبل سے بدستورخائف رہے۔ ماہرین لسانیات کاکہنا ہے وطن عزیزمیں 61زبانیں جبکہ صوبہ سرحد اور گلگت بلتستان میں 26زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں بولی جانے والی بلتی، بروشسکی، وخی،شینا اور کھوار زبان کو انگریزی اصطلاح میں Threatend Languageکہاجاتاہے۔ جس کا اردو ترجمہ’’ حملے کی زدمیں آنے والی زبان‘‘۔چترال سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی حملے کی زدمیں آنے والی زبان کی جامع تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔’’اس کے بولنے والوں کی تعداد 10ہزارسے زائد یعنی لاکھوں میں ہومگر اس زبان میں بچے تعلیم حاصل نہ کرتے ہوں ،جودرسی زبان کے طورپر پڑھائی نہ جاتی ہو،جس کے بولنے والے آپس میں گفتگو کسی اور زبان میں کرتے ہوں،مادری زبان کے طورپر بولنے والوں کے گھروں میں بچے اور بچیاں دوسری زبانیں بولتے ہوں، جو میڈیا کی زبان نہ ہو ، اس معیارمیں سے کسی ایک پربھی پوری اترنے والی زبان حملے کی زدمیں آنیوالی زبان کہلاتی ہے‘‘۔

ہمارے ملک اور ہمارے علاقے میں زبان ادب اور ادیب کامسئلہ ہمیشہ سے پیچید ہ رہاہے ۔ادیب ،شاعر اور دانشور ملکوں، معاشروں اور زبانوں کے محسن ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے ہردورمیں اپنے ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں کو رسواکرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وہ عمربھراس ملک میں کسمپرسی کاشکاررہے ۔ اگر ہم ایک لمحے کے لئے اس حقیقت پر غور کریں کہ وہ کونسی سہولتیں ، کونسی عزت اور کونسی توقیر ہے جس کی تلاش میں ہمارے ادیب، شاعر اور دانشور ملک چھوڑنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔

ہماراالمیہ یہ ہے کہ نہ قومی سطح پر مقامی زبانوں کی تحفظ کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجودہے اور نہ ہی مقامی سطح پر مقامی زبانوں کی تحفظ کا کوئی اہتمام ۔ ہمارے غیرثقافتی روّیے،ہماری زبان دشمنی اور ادب کش پالیسیوں نے اس ملک میں ادب ، فکر اور فن کو معیاربننے دیا اورنہ ہی فنکار،مفکر اور ادیب کوہیرو۔زبان وادب اور ثقافت کی ترویج اور فروغ کاسلسلہ اس ملک میں کیسے رواج پائے گا۔ جس ملک کے باسیوں کی ڈکشنری میں زبان وادب اور ثقافت کی اہمیت کچی سیاہی کی طرح مٹ گئی ہو۔ اس ملک میں زبان وادب کے نام سے ثقافتی ’’اسٹیج شو ‘‘پر تولاکھوں روپے خرُد برُد ہوجاتے ہیں۔ لیکن زبان وادب پر تخلیقی کام کرنے کے لئے یا ادیب اور دانشورکے تخلیقی مواد کو منظرعام پر لانے کے لئے کہیں ادارہ موجودہے اورنہ ہی اس فالتوکام کے لئے کہیں فندمختص ہے۔ یہاں زبان وادب کی تخلیقات کو بالکل بے معنی اور لایعنی عمل سمجھاجاتا ہے۔ علمی ،ادبی اور تخلیقی کام کا ہماری سماج گھٹن معاشرے میں کوئی وزن اور اہمیت ہی نہیں۔ علمی ،ادبی اور تخلیقی کام کرنے والے دانشور قوموں اور ملکوں کے محسن ہوتے ہیں لیکن ہم نے ہردور اور ہرزمانے میں اپنے محسنوں کو رسوا کردیا ۔ چاہے وہ نصرت فتح علی خان ہوں یا مہدی حسن، قراۃ العین حیدر ہوں یا فیض احمد فیض ۔ وہ گلگت کاامین ضیاء ہویاجمشیدخان دُکھی۔ وہ ہنزہ نگر کا شیربازعلی برچہ ہویا سکردوکاحسن حسرت، وہ غذر کا جاوید حیات کاکاخیل ہو یا چلاس کا شمالی اور فراق ۔ان لوگوں کاجرم یہ ہے کہ یہ لوگ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدانہیں ہوئے ۔اگران کے پاس عزت اور اختیار ہوتا یہ لوٹابن کر یا کرپشن کی بدبودار نہرمیں غوطہ زن رہ کر بینک بیلنس بناتے ۔اگر یہ علمی قدآور شخصیات ،یہ جینوئن ادیب اور شاعر تخلیق کی بجائے سیاست شروع کردیتے ۔یہ علم کے چشمے بننے کے بجائے نوکریاں بیچتے ، یہ ادبی اور علمی تخلیق کارکی بجائے ضمیرکے بیوپاربن جاتے توآج اس ملک میں یہ لوگ نامور بھی ہوتے اور قدآور بھی۔ ان کاجرم یہ ہے یہ جینوئن اور علمی قدآور شخصیات امریکہ، یورپ ،برطانیہ اوربھارت کے بجائے پاکستان اور گلگت بلتستان میں پیداہوئے ۔ان نادان دانشوروں اور ادیبوں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ اس ملک میں پیداہوئے ہیں ۔جس ملک میں ادیب ،شاعر اور دانشورکو بے وقوف سمجھاجاتاہے۔ یہ اس ملک کے باسی ہیں جہاں ضمیر، نظریہ ،ایمان اور وفاداری بزنس کی ایک فورم کانام ہے۔ قصہ مختصر یہ اس ملک کے شہری ہیں جہاں شاعروں ،دانشوروں اورادیبوں کوجینے ہی نہیں دیاجاتا۔

معاشرتی احسان فروشی کے اس دورمیں شمالی ہی ادیبوں ،شاعروں اور دانشوروں کی بقاء کے لئے امیدکی ایک کرن ثابت ہوسکتے ہیں۔ شمالی کی شخصیت کو جس زاویے سے بھی دیکھااورپرکھا جائے ،شمالی ہرزاویے میں جینوئن ،مثبت اور ہردلعزیز نظرآئیں گے۔ اب یہ مقامی زبانوں اور مقامی ادب پر اللہ کااحسان ہے یا اس وقت شمالی کاامتحان ۔۔۔۔۔۔۔کہ نگران حکومت میں زبان وادب اور ثقافت سے متعلق وزارت کی بھاگ ڈورشمالی کے ہاتھوں میں ہے۔ امید اللہ سے ہے کہ عنایت اللہ شمالی مقامی زبانوں ،شاعروں ،ادیبوں اور مقامی دانشوروں سے متعلق ہرالجھی ہوئی گتھی کو سلجھادیں گے اور گلگت بلتستان کے سینکڑوں ادیبوں ،دانشوروں اور شاعروں کے احساسات وجذبات کی بھرپور ترجمانی کریں گے۔ گلگت بلتستان کے یہ تمام ادیب وشاعر اور دانشور اپنے معصوم خواہشوں کو تاریخ مستقبل کے حوالے کرنے کیلئے تاریخ کے نئے صفحوں کے منتظرہیں اور اللہ کے حضور دعاگوہیں کہ کل کو کوئی مورخ تاریخ کے صفحہ میں یہ جملہ نہ لکھے ’’آج گلگت بلتستان کے سومہ دیوی ‘‘نامی بڑھیا انتقال کرگئی اور اہلیان گلگت بلتستان نے سومہ دیوی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے مقامی زبان دیورا کوبھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا‘‘۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button