کالمز

سکردو حلقہ تین کی سیاست اور خدشات

Sher Ali Anjum جس طرح پورے خطے کی سطح پر سیاسی میدان میں گرما گرمی ہے بلکل اسی طرح سکردو حلقہ تین میں پارٹیوں کی طرف سے امیدواران کی اعلان کے بعد کافی گرما گرمی نظر آرہی ہے ۔ اس حلقے میں جیت کا سہرا کس کے سر سجے گا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ماضی کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں توگلگت بلتستان ہمیشہ وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جنکی وفاق میں حکومت ہو۔مگر وقت اور حالات کی تبدیلی کے باعث اس مرتبہ صورت حال تھوڑا مختلف ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے نسبت اس بار الیکشن کچھ حد تک شفاف ہونگے ،یہ الگ بات ہے کہ حکمران جماعت نے نگران کابینہ سے لیکر نچلی سطح تک الیکشن سے پہلے دھاندلی کی تیاریاں مکمل کرچُکی ہے لیکن یوتھ کا اس فرسودہ نظام کے خلاف متحرک ہونا یقیناًتبدیلی کی علامت ہے۔میں پورے خطے کی سیاسی صورت حال پر گفتگو کرنے کے بجائے ایک بار پھر اپنے حلقے کے حوالے کچھ حقائق عوام کے سامنے رکھتے ہوئے الیکشن لڑنے والے امیدواران اور پارٹیوں کے مقامی قیادت کا توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہوئے اگر ایم ڈبلیو ایم کی بات کریں تو اس مذہبی جماعت نے حلقے کے عوام سے کسی قسم کی رائے لئے بغیر پیپلزپارٹی کے ایک نظریاتی کارکن کو ٹکٹ دیکر پی پی پی کی تابوت میں ایک اور کیل ٹھونک دیا۔ دوسری بات اس پارٹی کے قائدین سے امیداور کی انتخاب کے حوالے سے جب بھیمیڈیاپر جب بھی سوال اُٹھا تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ہم صالح امیدوار کو ٹکٹ دیتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ صالح کو تولنے کا ترازو خود کس معیار ہے،میں ذاتی طور پر بلاول بلتستانی کے نام سے معروف وزیر سلیم صاحب کو نہیں جانتا لیکن دعا یہی ہے کہ وہ سیاسی طور پر صالح ثابت ہوجائے۔لیکن ایم ڈبلیو ایم کی حکمت عملی سے حلقے کے باشعور لوگوں کو سیاسی طورپر اختلاف ضرور ہے کیونکہ یہ پارٹی پہلی بار الیکشن لڑنے جارہے ہیں مگر لگتا ایسا ہے کہ پارٹی قیادت نے جلدبازی میں فیصلہ کرتے ہوئے زمینی حقائق کا مطالعہ کئے بغیر ایک ایسے امیدوار کو اس حلقے کا سب سے طاقت ور شخص کے مقابلے کھڑا کیا ہے جنہیں اپنے ہوم ٹاون سے بھی سیاسی مخالفت کا سامنا ہے ،اس مخالفت کی کئی سیاسی اور سماجی وجوہات ہیں جنکا میں پہلے بھی کئی بار اپنے مختلف کالمز میں ذکر کرچکا ہوں۔حسین آباد کے علاوہ گول،نر،سرمک،شلہ، یونین کونسل کتی شو،غاسنگ ،منٹھوکھا اس حلقے کا ایک اہم ووٹ بنک سمجھا جاتا ہے ، گلتری سے حاجی فدا محمدناشاد اپنے مخصوص لوگوں کی وجہ سے ہمیشہ جیتتے آئے ہیں اور اس بار بھی کہا جارہا ہے کہ گلتری انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے ماضی میں ناشاد صاحب کو کچھ سرکاری ٹھیکوں کے عوض جتایا تھا لیکن باقی علاقوں کا جو میں نے اوپر ذکر کیا یہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو ایم ڈبلیو ایم کے امیداور سے سیاسی طور پر اختلاف رکھتے ہیں ۔راقم نے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی غرض سے مختلف گاوں کے کئی پڑے لکھے اور سماجی شخصیات سے رابطہ کیا تو یہی جواب ملاتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے سیاسی یتیمی سے نکال کر ایوان میں پونچایا لیکن ایوان تک رسائی کے بعد صرف اپنے گاوں کے خود ساختہ لوگوں کو کئی اہم سرکاری عہدوں پرتعینات کرکے حلقے کے عوام اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ذاتی کرسی کیلئے کوشش کرتے رہے جس میں کامیاب ہوتے ہی عوام کو سیاسی طور پریتیم کرکے عوامی ووٹ کی قدر قیمت کو پامال کرنے کے بعد عوام سے معذرت کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ایسے میں ایک بار پھر انہی میں سے ایک اور غیر معروف شخص کو مذہب اور عقیدے کے سہارے سیاست میں اُتارنے کا یہ فیصلہ موصوف امیدوار کیلئے مسقتبل میں فائدہ ہو سکتا ہے لیکن ایم ڈبلیو ایم کو سیاسی طور پر نقصان پونچے گا کیونکہ اس حلقے کا سمجھدار طبقہ اس فیصلے سے قطعی طور پر خوش نہیں ۔اگر ہم صرف یونین کونسل کتی شو کی بات کریں تو یہاں کے عوام کئی سماجی اور معاشرتی معاملات پر حق تلفی اورنظراندازی کے سبب شدید خدشات ہیں رکھتے ہیں ماضی میں یہاں کے عوام اور عمائدین پر جو ظلم اور تشددہوا وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، آج بھی یونین کونسل کتی شو کے عوام یہی شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دینے کی صورت میں اُس علاقے سے گزر کرجانا مشکل ہوجاتا ہے ،اسی طرح غاسنگ، منٹھوکھا کے عوام اس بار تبدیلی کیلئے تیار تھے کیونکہ فدا ناشاد نے آج تک اس علاقے کی ترقی اور تعمیر کیلئے کچھ کرنے کے بجائے صرف چند لوگوں کو نوازتے رہے لیکن بدقسمتی سے تبدیلی کا یہ خواب اس بار بھی ادھورا رہ جانے کا خدشہ ہے کیونکہ یہاں کے عوام بھی دوسرے علاقوں کی طرح معاشرتی ترقی کے حوالے سے ذیادتی کا شکار رہے ہیں۔لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کے انتخابات میں ایسے بھی واقعات رونما ہونے کی ثبوت موجودہے جب لوگوں کو ووٹ دینے سے انکار پر بھرے محفلوں میں طاقت کے بل بوتے پر تشدد کا نشانہ بنایا اور آج بھی بدقسمتی سے اُن سے اختلاف رکھنے والوں کو مختلف طریقوں سے زدکوب کیا جاتا ہے ۔ اب چونکہ وحدت المسلمین فیصلہ کرچکے ہیں لہذا مزید اس حوالے سے کچھ کہنے کا فائدہ نہیں لیکن موصوف امیداوار جو ذاتی طور پر سُننے میں آیا ہے کہ نہایت ملنسار شخصیت کا حامل انسان ہے ، گزارش یہ ہے کہ روئے تبدیل کریں کیونکہ زمانہ بدل گیا اب وزیری کے نام پر حکومت کرنے کا وقت نہیں بلکہ معاشرتی ضرورت اور عوامی ڈیمانڈ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مفادات کی تقسیم کا وقت ہے، اب سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر میرٹ پامال کرنے کا زمانہ نہیں بلکہ حق دار کو حق دینے کا دور ہے۔بدقسمتی سے ماضی میں جب بھی آپ کے خاندان کے لوگوں کو حکومت کرنے کا موقع ملاعوام پریشان اور منظور نظر لوگ مستفید ہوتے رہے ہیں لہذا اس بار اگر اللہ نے موقع دیا تو پارٹی منشور کے مطابق عدل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عدل بناء جمہور کا کوئی مطلب نہیں۔ علاقے کے عوام سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ اس ووٹ کو مذہبی رنگ دیکر حسینؑ اور یزید کا معاملہ بنانے کے بجائے معاشرے کی ضرورت کو سامنے رکھ کر استعمال کریں تاکہ معاشرہ اور معاشرے کے لوگوں کو بہتر زندگی میسر ہو۔اللہ ہم سب کو معاشرتی ترقی اور تعمیر کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button