خو د کشی ، اک سر کشی
الوا عظ نزا ر فر ما ن علی
خو د کشی ایک بد تر ین سر کشی ہے جو پیدا وا ر ہے بے رحم خو د فرا موشی اور اصو ل حیا ت سے چشم پو شی کا ۔ اس بے سو د اقدام کو اقوا م عالم نے متفقہ طو ر پر سنگین جرم جبکہ دنیا کے تما م مذاہب با لخصوص دین اسلا م میں بڑ ی شد ت سے مذمت کی گئی ہے اور اسے نا قابل تلا فی عظیم گنا ہ قرا ر دیاگیا ہے ۔ خو د کشی نا م ہے مسا ئل زند گی سے را ہ فرا ر اختیا ر کر نے کے نا پسند ید ہ و غیر فطر ی صو ر ت کا، جو عکا سی کر تا ہے فر د کی نظر یا تی بوکھلاہٹ ، اخلا قی گرا وٹ ، رو حا نی خشک سا لی اور ایما نی و عملی زبوں حا لی کا ۔
دین رحمت کے مطا بق ایک انسا ن کو فا ئد ہ پہنچا نا پو ر ی کا ئنا ت کو نفع پہنچا نے کے برابر ہے ، اس اعتبا ر سے اگر کو ئی ما یو سی کے عا لم میں اپنی جا ن سے ہا تھ دھو نے کا مذمو م ارا د ہ کر تا ہے تو دوسر ے الفا ظ میں سار ی انسانیت کو نقصا ن پہنچا نے کی ذمہ دار ی قبو ل کر تا ہے ۔ بحیثیت مسلما ن ہم پر حقو ق اللہ و حقو ق العبا د یکسا ں طو ر پر عائد کئے گئے ہیں جب ہم بناسو چے سمجھے عجلت میں خو د سو زی کا در دنا ک فیصلہ کر تے ہیں تو اس وقت ہم عملاً خدا ، اہل و عیا ل اور معا شر ےء کے حقو ق و حر مت کو پا ما ل کر تے ہیں ۔ گھر اور معا شر ے کو اجا ڑ نے کے سا تھ دا ر عاقبت کو بھی ویرا ن کر دیتے ہیں ۔ اللہ و رسو ل کی ہدا یت و رحمت سے دور ی اور حقو ق العبا د کا با ر گراں ہما ر ی روح کو تا قیا مت چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ، اس لیے دین فطر ت میں اسے حرا م کہا گیا ہے ۔ ایسا کیوں ہو تا ہے ، اس کے پیچھے چھو ٹے بڑ ے کئی عوامل کا ر فر ما ہو تے ہیں ۔ایسے دلخرا ش واقعا ت مختلف وجو ہ کی بنا پر وقو ع پذیر ہو تے ہیں کبھی نا ز و نعم میں اور بے جا لا ڑ پیا ر میں پر و ر ش پا نے والے اچا نک اپنی حیثیت کو کھو تا ہوا محسو س کر کے مو ت کو گلے لگا تے ہیں تو کو ئی آ نکھ کھلتے ہی مصا ئب و ظلم ، لعن طعن اور کم بختی کے تیر عز ت نفس کے وجو د میں مزید جھیلنے کی سکت نہ پا تے ہو ئے زند گی کے اختتا م کا تہیہ کر لیتے ہیں تو کہیں پے در پے نا کا میوں اور رسو ائیوں کے سلگتے انگا ر ے مو ت کی ٹھنڈ ی چھا ؤں میں لیٹنے پر مجبو ر کر دیتے ہیں ،اس کے علا و ہ کسی کو گھر اور درسگاہ کا ماحول بہتر ملنے ملنے کے باوجو د جب و ہ من چلے اور او با ش افرا د کی محبت میں منشیا ت و بے را ہ رو ی کا عا د ی ہو نے کے بعد پلٹنے کا احسا س ہو بھی جا ئے تو و ہ زیا د ہ دور ی پا کر اس دنیا سے ہی کو چ کر نے میں عا فیت محسو س کر تے ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں خود کشی کی شرح سالانہ پچیس سو سے تین ہزار افراد کے آس پاس رہی جس میں اجتماعی خود کشیاں بھی شامل ہیں جس کے پیچھے بے روزگاری، کم آمدنی، لاعلمی اور احساسِ محرومی جیسے خطرناک محرکات نمایاں نظر آتے ہیں ۔ خو د کشی ایک ہنگا می رد عمل ہے جو زند گی کے مختلف موڑ پر پیش آ نے والے غیر متو قع صورتحا ل کا جو مظہر ہے امید و وفا کی شکست اور ما یو سی و یا س کی جیت کا ۔ محبت و حکمت کی مو ت اور نفر ت و حقا ر ت کی حیات کا ، امید و فرحت کے دیے بجھنے او رخو ف و الم کی تار یکی چھا جا نے کی کیفیت کا ، خصوصاً عقل و تد بیر کی پسپا ئی اور تو ہما ت و وسو سہ نفس حا و ی ہو نے کی غیر متوا ز ن صورت حا ل ہے ۔ کبھی ہم نے خدا کی تخلیق کر د ہ حسین دنیا اور اس میں آ با د انسا ن کی ضرو ریا ت و تقاضوں کو سمجھنے کی کو شش کی ہے ،کیا ہم نے اپنے آ پ کو زند گی کے بہا ؤ کے مطا بق ڈھا لنے کی سعی کی ہے ، واقعی میں ہم واقعا ت و حا لا ت کے نبض پر ہا تھ رکھتے ہو ئے بہتر سے بہتر ین کی تلاش لگے ہو ئے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہور ہا ہے کہ جب دنیا جا گتی ہے اس وقت خوا ب خر گو ش میں پڑ ے ہو ئے ہو تے ہیں ، سا را جہا ں متحر ک ہو تا ہے تو اس گھڑ ی ہم پر جمود طا ری ہو تا ہے ۔ دوسر ے کی خو شیوں میں خا مو ش اور ان کے غموں میں بے فکر ی ، بد ی و تخر یب میں دلچسپی اور بھلا ئی و خیر خوا ہی کے امو ر میں عد م شمو لیت جیسی غیر ذمہ دا را نہ رو ش ہمیں اصلا حِ احوا ل اور خو د احتسا بی سے بیگا نہ کر کے انفر ا دی خسا ر ے کو دوسر وں کے کھا تے میں ڈال دینے کے عا د ی تو نہیں ہو چکے ہیں ۔ ہمیں زند گی کی حقیقت کو زمینی حقائق کے مطا بق دیکھنا ہو گا کہ یہ کو ئی بچوں کا کھلو نا نہیں جو ٹو ٹ جا ئے تو نیا لے آ ئیں گے ۔ یہ جو ئے کی با ز ی کی طرح نہیں جو ابھی ہا ر ے تو اگلی با ر ی میں جیت جا ئینگے ۔زند گی ایک انمو ل و گرانما یہ عطیہ الہٰی ہے جو صر ف ایک بار عطا ہو تی ہے ۔جسے بے خبر ی و بے احتیا طی سے ضائع کر نے کی بجا ئے نہا یت احترا م و پا کیز گی ، دیا نت ومحنت کے سا تھ نہا یت احسن طریقے سے گزرا نی چا ہیے جس کے لیے ضرو ر ی ہے کہ حقیقی تصو ر انسا ن کو سمجھا جا ئے ۔ بحیثیت انسا ن ہم کو ن ہیں ، ہماری اصل حقیقت کیا ہے اور ہمیں دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے ۔ یقیناًدینی نقطہ نظر سے ہم خدا کی تخلیق کا عظیم شا ہکار ، اما نت الہٰی کے امین ، احسن تقو یم پر پیدا کیا گیا اور مسجو د ملا ئک بنا ئے گئے ۔ تما م مخلو قا ت ہما ر ی خد مت کے لیے اور ہمیں خد ا وند مہر با ن نے اپنی معر فت کے لیے چنا اور ار ض و سما ء کی تسخیر کی صلاحیت ، علم اسما ء کی صورت میں عطا کر کے پور ی کا ئنا ت پر تصر ف عطا فر ما دیا ۔الحمد اللہ ، جی ہا ں تما م انسا ن کا ر خا نہ قد ر ت کا مر کز ی نکتہ اور جامع کا ئنا ت ہو نے کی حیثیت سے دنیا کی خصوصیا ت و رنگ اپنی ذات میں سمیٹے ہو ئے ہے۔ اس کے تصورا ت و خیا لا ت کا افق نیلے آسما ن سے بھی او نچا نظر آتا ہے، اس میں جذبات و احسا سا ت کاسمند ر مو جز ن ہے ، با دلوں سی لطا فت ، پھو لوں جیسی نزاکت ، جا نور وں جیسا نفس ، فرشتوں جیسی بز ر گی، عزائم پہاڑ سے بھی زیا د ہ او نچے ، پانی سے بھی زیا د ہ شفا ف آئینہ دل ، مٹی سی خا کسا ر ی ، آ گ نما غصہ ، ہوا سے بھی زیا د ہ لطیف رو ح ، جا نو ر وں پر سوا ر ی ، دریا ؤں پر بند اور خلا ؤں کو چا ک کر نے والا انسا ن اپنے آپ کو کمتر ، احقر و بے مقصد تصور کر کے اپنی جا ن کا دشمن بن بیٹھے تو اس سے بڑی کفران نعمت ہو ہی نہیں سکتی۔پر و د گار نے انسا ن کو بے پنا ہ طاقت و کما لا ت عطا کر کے مطلق آزا د بھی نہیں رکھا اور نہ ہی و ہ بشر کی کسی صلاحیت و جذبے کو مٹانا چا ہتا ہے و ہ ان کے جا ئز و منا سب استعما ل کے ذریعے تعمیر ی و تخلیقی رجحا ن دیکھنا پسند فر ما تا ہے ۔ بلا شبہ زند گی نر م و گر م ، تلخ و شر ین اور پھو ل و کانٹے جیسے ملے جلے احسا سا ت کے سنگم کا نا م ہے ۔ خو شی و غم ، کا میا بی و نا کا می ، نیک و بد اور مو من و کا فر پر یکسا ں طو ر پر آتے ہیں ۔ فر ق زاویہ نگا ہ کا ہے جی ہاں یہی نقطۂ نگا ہ کا فر ق مو من کو دونوں صورتوں میں فائد ے میں رکھتا ہے ۔ اسے کا میا بی و خو شی ملتی ہے تو و ہ عا جز و شکر گزا ر بن جا تا ہے اور نا کا می و دکھ میں صبر و صلواۃ کا سہارا لے کر مزید رحمتوں کے حصو ل کے قابل بنتا ہے جبکہ کا فر کا میا بی میں مغر و ر اور خو د سر اور شکست میں مزید مایو سی و داخلی اضطرا ب کا شکا ر ہو کر اپنی جا ن کا دشمن بن جا تا ہے ۔
در حقیقت شعو ر کے یہی دو رخ ہیں ایک تعمیر اور دوسرا تخر یب ۔اگر انسا ن اللہ پر کا مل بھر وسہ رکھتے ہو ئے تعمیر ی شعو ر بر و ئے کا ر لا ئے تو و ہ کو چہ زمین سے لے کر آفا ق کے کنا روں تک کمند ڈال سکتا ہے ۔ ایسی مثبت ذہنیت کا حا مل انسا ن مٹی سے سو نا ، زہر سے دوا ، آتش جہل سے گل و گلزا ر ، جلتی کو بجھا نا ، ٹو ٹے دلوں کو جو ڑنا ، شکست کو جیت اور من کے شیطا ن کو مسلما ن بنا سکتا ہے جبکہ اس کے برعکس خدا پر ایما ن و محبت گھٹنے کی صورت میں تخر یبی شعو ر ازخو د متحر ک ہو کر خو شی غم میں ، عد ل ظلم میں ، امن فسا د میں ، نعمت زحمت میں ، آ زا د ی بے را ہ رو ی میں ، دو لت حر ص میں ، علم کاروبا ر میں ، مذہب سیاست میں ، خد مت ریا کا ر ی میں اور اقتدار و اختیار استحصا ل انسا نی میں بد لتا جا تا ہے ۔اس کے باوجو د زند گی کے طو یل شاہر ہ پر تیز رفتار ی سے محو سفر انسا ن اچا نک نمو دار ہو نے والی پیچید ہ رکا وٹ و تکا لیف سے دلبرداشتہ ہو کر مذکورہ غیر اخلا قی و غیر انسا نی فعل انجا م دینے والا معا شر ے کا مجر م بنتا ہے ۔جس طرح آسما ن میں ستاروں سیا روں کی تر تیب ، موسموں کی کیفیت ، زمین کی سطح اور تما م انسا ن صورت و خصلت کے اعتبا ر سے یکسا ں نہیں ہیں اس طرح تما م انسا نوں کے حا لا ت زند گی یکسر ایک جیسے نہیں رہتے ۔ کبھی تکلیف تو کبھی راحت ، آ ج کا میا بی کا دن ہے تو کل نا کا می کی تا ر یکی ضر و ر ڈیرے ڈالے گی ۔ ایسی زند گی کا تو لطف آ تا ہے ۔ اگر خزا ن نہ آ ئے تو بہا ر کی قد ر کسے ہو گی ۔ رنج سے خو شی کی، بیما ر ی سے صحت کی ، کھو نے کے بعد پانے ، انتظا ر کے بعد دید کی اور جد و جہد کے بعد ہی فتح کا مز ہ آ تا ہے ۔ خو د کشی کر نے والا یہ نہیں دیکھتا کہ و ہ جن حا لا ت سے تنگ آکر کشتی حیا ت کو غر ق کر رہا ہے خدا کی مہربا نی سے وہی حا لا ت کل اس کے حق میں بہترین ثابت ہو نگے ۔ اللہ کے دامن رحمت کو تھا م لینے سے طوفانوں کے رخ بد لے اور مایو سی کے آ سیب کچلے جا سکتے ہیں ۔ضر و رت اس امر کی ہے کہ زند گی کو فطر ی اندا ز میں گزا ر تے ہو ئے سا د گی کو شعا ر بنا ئیں ۔ اپنی چا د ر کو دیکھ کر پا ؤں پھیلا ئیں ۔ تر قی کے لیے اپنے سے آ گے دیکھیں اور آزما ئش کی گھڑ ی میں اپنے پیچھے نظر دو ڑائیں ۔ جس طرح ہر با ل پر چو کا چھکا نہیں لگ سکتا اسی طرح زند گی کے ہر د ن کا میا بی و خو شی کاکر یڈ ٹ نہیں ملتا مگر ایک با ت طے ہے کہ یہی مسا ئل و مشکلا ت انسا ن کو بیدا ر رکھنے ، شخصیت کو مضبو ط اور صلا حیتوں کی جِلاکے لیے معا و ن ہو تے ہیں ۔ انسا نی تا ریخ عظیم لو گوں کی کا میا بی کی داستا نوں سے رو شن ہے جنہیں قد ر ت نے تکا لیف و مشکلا ت کی بھٹی میں تپا کر خا لص سو نا بنا دیا ۔جیسے نا بینا ہیلن کلر بصا ر ت رکھنے والے انگنت انسا نوں کے لیے مشعل را ہ بن سکتی ہیں ، دورا ن تعلیم نوجوا نی میں معذو ر ہو نے والا طبیعا ت کا طا لب علم اسٹیفن ہا کنگ نئی تھیو ر ی پیش کر کے دوسرا آئین سٹا ئن کے لقب سے جا نا جا تا ہے، زما نہ طا لب علمی میں فیس کی عد م ادا ئیگی پر نکا لا جا نے والا حکیم سعید تعلیم ، صحت اور تحقیق کے شعبوں کی پہچا ن بن جا تا ہے، تقریباً نصف عمربا قا عد ہ تعلیم سے دور رہنے والا شیخ سعد ی مختصر عرصے کی انتھک محنت سے دین و ادب کا معتبر نا م کہلاتا ہے ، اپنی یو نیو ر سٹی کا نا ر مل طا لب علم جو اسائمنٹ بر وقت نہ دینے پر فارغ کیا گیا وہی بل گیٹس امید و لگن کے بل بو تے پر آ ئی ٹی کی دنیا کا بینچ ما ر ک اور فقط دو عشروں میں امیر ترین افرا د کی فہر ست میں شامل ہو جا تا ہے ، منز ل کی دور ی ، مو سم کی سختی اور را ہ بھٹکنے کے باوجو د سمند ی سفر جا ر ی رکھ کر امر یکہ کو در یا فت کر نے والا کرسٹو فر کو لمبس ، اخبا ر بیچنے والا امر یکی صد ر ، غر یب سر کا ر ی لائبریر ین عظیم انقلا ب کا با نی ۔
تاریخ میں ایسی بز ر گ شخصیا ت کا تذکر ہ ہو تا ہے جن کی نصف زند گی دنیا دا ر ی و عشق مجا ز ی میں ٹھو کریں کھا نے کے بعد جب و ہ دین کی طر ف لوٹے، رب کے عشق میں ڈو بے تو قلند ر و غو ث بن گئے ۔ ان کی رحلت کے بعد بھی ان کے مقبر ے امید کی کرنیں بکھیر تے ہیں ، جب ایڈ یسن اپنے تجر بے میں 999با ر نا کا م ہو کر کا میا بی سے مشر ف ہو جا تا ہے تو پھر ہم زند گی کے کسی بھی شعبے میں دو چا ر مر تبہ نا کا می پر خو د کشی جیسی نا پا ک چیز کا تصو ر بھی ذہن میں کیوں لا تے ہیں ۔لہٰذا خو د سو زی کی بجا ئے ، خو د سا زی کی ، خو د کشی کی جگہ نفس کشی کی ضرور ت ہے ۔ خو د سازی ور کشا پ کا آغا ز سالا نہ ، ما ہا نہ یا پھر ابھی اسی وقت سے کر سکتے ہیں ۔ تھوڑ ی دیر کے لیے دنیا سے اپنا تعلق منقطع کر کے اپنے فکر و خیا ل کو دنیا میں داخل ہو کر اللہ کی موجو دگی کو اپنے رگ جا ں سے بھی زیا د ہ قر یب محسو س کر تے ہو ئے خو د احتسابی کا عمل شر وع کر یں ۔ اپنی شخصیت میں پا نی جا نے والی کسی ایک اخلا قی و سما جی برائی کو مٹا کر اس کی جگہ اعلیٰ اخلا قی صفا ت کو اپنا نے کا عز م کریں ۔ یہ تعمیر ی کا م ہر رو زصبح و شا م یعنی را ت کو سو نے سے پہلے ، دن بھر کی سر گر میوں کا جا ئز ہ یں اور پر کھیں کہ ہم نے دینی و دنیا و ی لحا ظ سے کیا کھو یا اور کیا پا یا ۔
جب صبح سو یر ے اٹھیں تو نئی زند گی ملنے پر اللہ تعا لیٰ کا شکر یہ ادا کریں اور ا س با ت کا مصمم ارا د ہ کریں کہ کل جو کچھ کھو یا تھا اسے آ ج پا نے کی کو شش ، ہم سے جو بھی غلطیاں کل تک ہو رہی تھیں آج ان کا ازالہ کریں گے ۔ ہما ر ی اوسط عمر 70,60یا 80سا ل ہوتی ہے جس کا نصف حصہ تو نیند کی نظر ہو جا تا ہے وقت اور جذبا ت کا بڑ ا سرمایہ دوسروں پر طنز ،نقل ، تمسخر ، کر دار کشی ، چغلی ، حسد و غرو ر ، انتقا م اور بد لہ لینے کی آ گ میں جل کر خا کستر ہو جا تا ہے ۔ رہی سہی کسر ٹی وی ، مو با ئل ، انٹر نیٹ اور تفر یح طبع کے نام پہ یا ر دوستوں کے سا تھ ہو ٹلوں میں فضو ل گو ئی میں تما م ہو تی ہے ۔ سوا ل یہ ہے کہ مجھ پر میر ی ر و ح کا بھی حق ہے جو دائمی حقیقت ہے، آیا اس کا حق غو ر و فکر اور فرائض وعباد ا ت کے ذریعے با قا عد گی سے ادا کر رہا ہوں ، رو زانہ مطا لعہ اور ورزش کے سا تھ اپنی تعلیم و مہا ر ت بڑھا نے کے لیے مزید ڈگر یاں اور کو رسز کے حوا لے سے متحر ک ہوں ، دوستوں کی تو فکر ہے مگر کیا اپنے والد ین بزر گوں ، با ل بچوں اور عزیز و اقا ر ب کی خبر گیر ی کی عا دت بھی ہے ۔مختصر یہ کہ دنیا کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلیں، اپنے آپ کو بدلنے کے لئے سوچ کو تبدیل کریں، دوسروں پہ تبصرہ و تذکرہ کرنے کے بجائے اپنا تزکیہ و تصفیہ کریں، توہمات و قیاس آرائیوں کو چھوڑ کر ایمانِ محکم و خیر اندیشی کی روش اپنائیں، کورانہ تقلید کو ترک کے تحقیق و جستجو کے پائے پر چلتے ہوئے سہل پسندی کو خیر باد اور عمل پسندی اختیار کر لیں ، خود آگاہی کے ذریعے اپنے آپ کو پہچانیں اور اپنی قدرو قیمت کو جانیں جب ہمیں دین کی روشنی میں اپنی ہستی پر اعتماد و بھروسے کا کلی شعور ہونے لگے گا تو یقین جانئے وہ لمحہ معاشرے سے ہر قسم کے اخلاقی و سماجی برائیوں/ بیماریوں کے خاتمے کایقینی سبب ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ
welll writen sir