کالمز

تعلیم یافتہ  دہشتگرد

تحریر : ظفر اقبال

zafar iqbal13 مئی کے المناک اور انسانیت سوز حادثے میں بطور رضاکارمیمن ہسپتال صفورہ میں خدمت کا موقع ملا۔میں میتوں کی شناخت اور منتقلی پر مامور تھا۔  لاشوں کے درمیان اپنے آپ کو پا کر تھوڑی دیر کے لئے میں بھی  ان دہشتگردوں کی طرح بے حس اور وحشی بنا تھا جو  بغیر کسی ندامت اور احساس کے  ہنستے کھلتے چہروں کو لاشوں میں بدل کر  ان کے جسد خاکی کو  قصاب کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ  منتقل کر رہے تھے اور  ہسپتال کا شعبہ ایمرجنسی  قصاب خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ 17 سالہ علی،  35 سالہ مسماتہ (خ)  اور 70 سالہ مسماتہ(ب)  اور 43 بے گناہ لوگوں کو  کچھ ہی لمحے پہلےابدی نیند سلا کر بھی میرے چہرے پر احساس، ندامت اور شرمندگی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اگر  ہماری جگہ کوئی جانور ہوتا تو وہ بھی    اس شیطانی فعل پہ ضرور  ندامت کا  اظہار کرتا  مگر  ہم ہیں کہ۔۔۔۔۔۔

میری زندگی میں تین واقعات ایسے ہیں   جو کبھی میرے ذہن سے محو نہ ہونگے، جن میں پہلا بڑا سانحہ  2005میں آنے والا  قیامت خیز زلزلہ ہے جس  میں لاکھوں  انسان لقمہ اجل بن گئے۔  دوسرا  واقعہ میریٹ ہوٹل اسلام آباد کا ، جس میں  54  قیمتی   انسانی جانیں ضائع ہو گئیں اور  266 کے قریب لوگ  زخمی یا معذور ہوگئے اور تیسرا  اپنی نوعیت کا واقعہ جو حال ہی میں پیش آیا یعنی سانحہ صفورہ! اس کے علاوہ  سینکڑوں  اور بہت سارے واقعات  ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں۔

یہ تین وہ واقعات ہیں جن میں ،میں نے  بطور رضاکار  کام کیا ہے اور اپنی آنکھوں سے وہ تمام مناظر دیکھے  ہیں جس میں قاتل کوئی اور نہیں   ہم ہی تھے۔یعنی انسان کے روپ میں شیطان۔ خیر 2005   کا زلزلہ تو  قدرت کی طرف سے ایک  آفت تھا۔ مگر اس آفت میں   انسانی روپ میں شیطانوں نے جو کچھ کیا  وہ   یقینا  ایک شرم ناک   عمل تھا جس میں  لاشوں  کے بازو محض اس لئے کاٹے گئے  کہ ان میں  کچھ    جیولری  تھے۔  امدادی کام کرنے والوں کے  لیپ ٹاپ اور موبائل چرائے گئے۔   اور   ان کو مارا ۔جو ہماری مدد کے لئے آئے تھے۔غرض  ہم نے ان کیساتھ کیا نہیں کیا؟

ہم کتنے بے حس اور  بیوقوف ہیں کہ  ایک  جنونی مذہبی انتہا پسند  گروپ(جنداللہ) خود  یہ ذمہ داری قبول کر لیتا ہے کہ کراچی میں  اسمعیلیوں پر حملہ ہم نے کیا ہے اور ثبوت کے طور پر  پمفلٹ پھینک کر  چلے جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نہیں یہ آپ نے نہیں کیا ہے یہ  تو  را نے کیا ہے۔آپ کی ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہے ؟ اگر آپ نے کیا بھی ہے تو ہم آپ کا نام کیونکر لینگے؟ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کسی گروپ نے ذمہ داری قبول کر لی ہے اس سے پہلے بھی  حسب روایت ایسا ہوا ہے اور ٹھوس شواہد بھی ملے ہیں۔ شاید ہم بھول گئے ہیں  کہ اس طرز کا واقعہ لو لوسر میں  بھی ہوا تھا  اور اسی طرح ایک گروپ نے ذمہ داری قبول کر لی تھی۔ اسی نوعیت کے بہت  ساری  واقعات بلوچستان  میں بھی رونما ہوئے مگر اب تک قاتلوں کو نہیں پکڑا جا سکا۔  لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ سانحہ صفورہ کے  قاتل پکڑے گئے ہیں  اور  ان کی تصاویر بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ کراچی پولیس نے اس خبرکی تصدیق کی ہے اور   انھوں نے  صفورہ کے علاقے میں اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے حملے کو فرقہ وارانہ دہشت گردی قرار دیتے ہوئے حملے میں ’را‘ کے کردار کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ واقعے میں ملوث 4 ملزمان کو ماسٹر مائیڈ سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یہاں پہ امر  قابل غور ہے کہ حملہ کرنے والے کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟

  وہ جنداللہ ہو یا طالبان، داعش ہو یا القاعدہ! مقصد ان کا ایک ہی ہے کہ مذہب کے نام پہ گلہ کاٹ دو  اور  انسانیت کا قتلِ عام کرو۔ حیران کن امر یہ ہے کہ  بقول ِ وزیر اعلی سندھ، سارے قاتل  اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔کوئی IBA کا  گریجویٹ ہے تو کوئی  سرسید  یونیورسٹی کا  انجینئر ،تو کوئی ملک کی بڑی یونیورسٹی (کراچی یونیورسٹی) سے اسلامک سٹڈیز میں  ماسٹرز ہے۔  ماضی میں ہم نے اس طرح کے واقعات  کا ذمہ دار   مدرسوں کو گردانا۔ اور  سارے   ملبہ ان پہ ڈالا۔ مگر اب ہم مدرسوں سے نکل کر  یونیورسٹیوں تک  پہنچ گئے ہیں اور وہ بھی ملک کی مشہور جامعات۔

پاکستان میں 46  افراد کا قتل کوئی  پہلا واقعہ نہیں۔ یہاں تو ہم نے  ایک ساتھ 300 لوگوں کو جلتے بھی دیکھا ہے۔   ہم شاید بھول گئے ہیں ۔ ہاں ہماری یاد داشت ضرور کمزور ہے۔ ہم نے آرمی پبلک سکول کے  معصوم بچوں کو بھی نہیں  بخشا۔ 150 سے زائد  بچوں کو ہم نے جس  بے دردی  سے  مارا   اور بہادری کا تاج اپنے سر لیا۔ اگر میں  یہاں اپنے تمام کرتوت  اور بہادری  بیان کرتا  چلوں تو   شاید  یہ کہانی ختم نہ ہوگی۔

صفورہ  کے واقعے سے  پاکستان  ضرور افسردہ ہوا ہوگا ۔ مگر وہ    مائنڈ سیٹ جو اس ملک میں  کثیر تعداد میں  ہے جو  دوسرے مسلک کے پیروکاروں کو واجب القتل  سمجھتا ہیں  ہر گز  افسردہ نہیں ۔ ان کے سامنے وہ تمام لوگ  کافر ہیں جو ان کے  طرزِ عقائد کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حشر یہی ہونا چاہیے۔  کیونکہ ان کے نزدیک    اس دنیا میں صرف انہی لوگوں کو   زندگی  گزارنے کا حق ہے  جو ان کے عقائد کے مطابق زندگی گزاریں۔  جن کو پاکستان کی یونیورسٹیوں  نے پالتو کتوں کی طرح پال رکھا ہے۔ جہاں ضرورت ہو۔  چھوڑ  د ئیے جاتے ہیں اور یہ  وحشی کتے  ان کے اشاروں پہ بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں ۔جو کبھی  عیسائیوں کو، کبھی  احمدیوں کو اور کبھی چترال کے اسماعیلیوں کو دھمکی دیتے ہیں ۔

پاکستان کےحکمرانوں کو  اور قوم کو  ان تمام  دہشت گردوں کے خلاف   اب متحد ہو نا  پڑے گا  اور  تما م جامعات(یونیورسٹیز) میں مذہبی  جنونیت کو فروغ دینے والوں کے خلاف  آپریشن کر کے  مرتکب پانے والوں کو قرار  واقعی سزا دینی چاہئیے اور اس مائنڈ سیٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئیے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button