گو ر نری اور انکھ مچولی
اس انکھ مچولی کے مطابق حالیہ اطلاعات کی روشنی میں نیا امیدوار برائے گورنر گلگت بلتستان کا نام سامنا آیا ہے ۔ہمیں جناب برگیڈیر(ر)مسعود کی خدمات اور قابلیت پر کوئی اعتراض یا شک وشبہ نہیں لیکن ہنزہ میں ان سے بھی سینرریٹایر فوجی وسویل افسران ہیں جو اس ذمہ داری کو بخوبی احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔مثلاً جنرل (ر)ڈاکٹر راجہ سلمان سمرقند(جس نے زندگی کا پیشتر حصہ بلارنگ نسل تفریق خدمت خلق میں گزاری ہے)برگیڈیر (ر)احسام اللہ بیگ اورگلگت بلتستان کے بانیوں،شہیدوں اور غازیوں کی جنگجوں خاندان سے تعلق رکھنے والاغازی کرنل (ر )ہادی حسین جن کافرزندارجمندحاضرسروس برگیڈیر ہے) کے علاوہ سول سروس گلگت بلتستان کے مایہء ناز غریب پرور اور خدمت گزارجناب شاہد اللہ بیگ (ر)سیکریٹری کاناڈویژن ) وغیرہ وغیرہ ہیں۔
اس اہم ذمہ داری کے لئے جو شخص متعین کی جاہے وہ مسلکی وعلاقائی محرومیوں کو بھی مد نظر رکھ کرفیصلہ کیا جائے ۔یاد رکھیئے تاریخ کو چُھپانے سے چھپتا نہیں ہے۔
مارشل ریس کے کس ڈسٹرکٹ کے شہیدوں کے نام پہلے چنار باغ یادگار شُہدا پر کندہ ہیں؟یقیناًاول ہنزہ نگراور دوئم غذر ہے ا ور اب ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔کس اضلاع کی راجاؤں نے پاکستان کے ساتھ غیرمشروط الحاق نامے پردستخط کئے؟کیا وہ میر محمد جمال خان اور راجہء شوکت علی خان والیان ہنز ہ و نگر نہیں تھے؟۔اور کس میر نے قراقرم ہا ئے وے کے ابتدائی مرحلے میں پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی اور دستخط کرکے دونوں ممالک کے لئے خنجراب کایہ دروازہ کھول دیا تھا۔کیاوہ میرمحمدجمال خان نہیں تھے؟۔بتایاجائے کہ کس ضلع کی حدودمملکت چین سے ملتی ہیں؟۔یادر ہے کہ پورے گلگت بلتستان کی بجٹ کے برابرسے بھی زیادہ آمدنی پاکستان سرکار کوملتی ہے۔وہ سوست بارڈر ہنزہ سے کیایہ دولت میسرنہیں ہوتی ہے؟۔
موجودہ گریٹ گیم کے ذمہ داروں کو اگر میرغضنفرعلی خان کی شخصیت کوئی خاص مقصد کی وجہ سے پسند نہیں توالگ بات ہے۔چلوپھرپرنس آف نگرپر نس قا سم علی خان کوگورنر بنایاجائے اقتصادی راہداری اور کپٹن صفدرمانسہرہ والی خواب کوعملی جامہ پہنانامقصود ہے توسابقہ نوکرچاکروں کی لمبی قطارہے اور اس کا جو بھی نتیجہ نکلے گاپھر سرکارذمہ دار ہوگا۔
اکتوبر ۱۹۷۴ ء میں زوالفقارعلی بھٹو نے سا بق ریاست ہنزہ کو معزول کیا تو اس وقت کے سرکار نے متبادل کوئی قانونی حیثیت ریاست ہنزہ کی واضع کر کے پاکستان میں شامل نہیں کیا بلکہ انگریزوں کی ۱۸۹۱ء کی قبضے کو تسلسل دیا۔انگریز توچلے گئے ہیں اس لئے اب ۱۹۷۴ء کی حقوق کے ساتھ اندرونی خودمختاری دے کرریاست ہنزہ کوبحال کی جائے
( شمشال اورچپورسن باڈرپرویسے بھی پاک فوج دفاع کرتی ہے)۔اس کے بعد بے شک ایک من پسندضلع کے ماتحت باقی اضلاع کو بھی کردیں اور ساتھ میں سکول کے بچوں کے ذریعئے یوم کشمیر پانچ فروری کو دھوم دھام سے منائیں۔
ہنزہ کے جنگجو قبائل نے جو تاریخی خدمات پاکستان کے لئے گزشتہ آٹسٹھ برسوں میں سر انجام دے چکے ہیں اب اس کے بدلے بجلی، پانی، صحت اور انسانی ضروریات زندگی کا بُرا حال ہے۔انہی ایام میں قدرتی آفت نے وادی چپورسن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔بس آج کل اقتصادی راہداری کے چرچے حکومتی سطع پر ہیں حکومت میں بیٹھے ان حکمرانوں سے کوئی پوچھے کہ پاک چین سرحد پررہنے والے پاکستان کے وفادارپُشتنی قوم کو قراقرم ہائے وے کی کشادگی کے کتنے پیسے دیئے ؟۔پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلندہے توغریب کسانوں کی زمینوں سے واگزارشاہراہ قراقرم کی معاوضہ دے۔ بغیرکس طرح د وستی کوہ ہمالیہ سے بلند اوربحرہ عرب سے گہری ہوسکتی ہے؟
ہر آنی والی حکومت کی ان عوامی حقوق کی تلفی کااحساس مستقبل کے نو جواں نسل کوقراقرم ہائے وے پر ڈاکہ زنی اور شدت پسندی کی طرف کیا راغب نہیں کرے گی؟۔کیاسو فیصد مسلمان علاقہ (گلگت بلتستان ) کو بے آئین رکھ کرپاکستان اور چین کی یہ دوستی کاپُل مظبوط رہے گا؟۔اس لئے حکومت کوہوش کی ناخن لینا چائیے۔نگراں حکومت اورموجودہ حکومت میں کس ضلع کے سیاسی افراد کونوازا؟۔دونوں حکومتوں میں ہنزہ کو زیادہ نظرانداز کر کے سوتیلی ماں جیساسلوک رواء رکھا ہوا ہے۔اگر برا نہ لگے تو موجودہ نوزائیدہ ضلع ہنزہ دے کرعوام پر کوئی زیادہ احسان نہیں کیا ہے۔اہلیان ہنزہ کو ایک سابقہ خودمختار ریاست کے بدلے بھٹو سرکار نے ایک ایڈیشنل ضلع دیا تھا۔پھرآمر صدر ضیاء الحق کے ہاتھوں مخالفین نے اُس ایڈیشنل ضلع کو ختم کروالیا تھا۔اتنے برسوں کے بعدضلع ہنزہ بحال ہوا۔اس میں زیادہ احسان جتانے والی بات نہیں ہے۔وہ بھی تیرہ افراد کو پابند سلاسل کر کے ہنزہ کے عوا م کی حقوق کو روند کرپیکیجز والی حکومتیں کیسی بنتی ہیں؟۔اور کیسی تبدیل ہوتی ہیں یہ سب جانتے ہیں
اور دیکھ رہیں کہ ہمارے شہد ا جُو چنار با غ میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں انہوں نے پیکیجز کے لئے خو ن نہیں بحایا تھا۔کیا یہ اہل گلگت بلتستان اور خاص کرہنزہ نگر کے عوام کو معلوم نہیں ہے؟۔اُس و قت مہاجر قیادت کے بزرگوں کی کیا حیثیت تھی؟۔وہ تاریخ کے حصوں میں اچھی طرح درج ہے۔سید،پیر،واعظ وحافظ کی د ینی حدمت کرتے وقت دھرتی ماں کے لئے جان دینے اورلینی والی جنگجو قوم کو تاریخ میں بُھولایا نہیں جاسکتا۔
بعض خاندانوں کی تاریخ میں کوئی کردارہی نہیں رہا بلکہ گلگت بلتستان کی آزادی کے خلاف تھے۔ اُن کے اولادوں کواب وفادار اور جن کے بزرگوں نے جی بی کی آزادی کے لئے اپنے جانوں کی قربانی دیکر سکھوں و ڈوگروں کو مار بگایا تھا۔اس دھرتی کوآئینی حقوق دے کرقومی اسمبلی وسینٹ اور سپرم کورٹ تک رسائی دیں کہنے پر اب اُن بانیوں کے محب وطن اولادوں کو غدار بناکر اقوبت خانوں میں پابند سلاسل کرنا کیا زیادتی نہیں ہے؟۔اور پھر کہتے ہیں دشمن ملک سے رابطے ہیں ۔ ا رے بابا دشمنوں کوہمارے بزرگوں نے بھگایا تھا۔تعصب کی عینکیں اُتار کرتاریخ پڑھولہٰذا میر غضنفر علی خان کو پہلی فرصت میں گورنر گلگت بلتستان تعینات کیا جائے نہ صرف ہنزہ بلکہ نگر اورغذر کے بہادر و محب وطن عوام کو بھی باعزت نمائندگی دی جائے۔ تاکہ گلگت بلتستان اورپاکستان زیادہ مستحکم ہو سکے ۔
نوٹ۔ اگر گلگت بلتستان کے ہر ضلع کو برابر نما ئندگی ملنا ممکن نہیں ہے توپھر سابقہ ریاستوں کا اندرون خودمختاری ہمارا نعرہ حقیقت پر مبنی ہے اس لئے سابقہ ریاست ہنزہ کو اندرون خودمختاری دی جائے۔وطن کے لئے قربانی ہم نے د یا او ر مفت میں مزے کوئی اور لیںیہ ڈرامہ بازی بار بار نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔