گلگت سکردو روڈ کا المیہ۔۔
راولپنڈی سے جاتے ہوئے حسن ابدال کراس کرکے جیسے ہی شاہراہ قرام میں داخل ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ واقعی میں گلگت بلتستان کے لوگ خوش قسمت ہیں جودنیا کا ساتواں عجوبہ کے طور پر مشہور وسیع و عریض عظیم شاہراہ قراقرم کے ذریعے سرسبزوادیوں کا نظارہ کرتے ہوئے منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔اس شاہراہ کی خوبصورتی اور اہمیت کے حوالے سے تو دنیا جانتی ہے کیونکہ یہ شاہراہ پاک چین دوستی کی عظیم علامت کے طور پر جاننے کے علاوہ چائنہ سے پاکستان کیلئے زمینی تجارت کا واحد راستہ بھی ہے لہذا اس شاہراہ کو وسیع عریض ،صاف شفاف رکھنا چائنہ اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہیں۔لیکن اس سے بھی بڑا عجوبہ اور سکتہ طاری اُس وقت پڑتی ہے جب آپ بلتستان جانے کیلئے جگلوٹ سے شاہراہ قراقرم کو بائی بائی کرکے عوامی راستے میں داخل ہوتے ہیں جیسے ہی پہلا جمپ لگتا ہے تو بلتستان جانے والے مسافرین محسوس کرتے ہیں کہ شکر ہے ہم ابھی بلتستان کی طرف چل پڑے ہیں ورنہ پیچھے کی سڑکیں دیکھ کر ناواقف لوگ اکثر تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ کہیں ہم چائینہ کی طرف تو نہیں نکل پڑے، یعنی عالم برج کا پہلا جھٹکا بلتستان کی طرف روانگی کی ایک خاص علامت ہیں۔اس سڑک کی تعمیر کے حوالے سے ماضی کے وعدوں میں جائے بغیر اگر ہم سابق حکومت سے بات شروع کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ سابق حکومت پا نچ سال کے عرصے تک یہی کہتے رہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کی یقین دہانی کروائی ہے جس کے تحت تقریباًاسی فیصد فنڈز ایشیائی ترقی بینک جبکہ صرف بیس فیصد فنڈز وفاقی حکومت برداشت کرے گی ،اور یہ بھی کہا گیا کہ معاہدے کے مطابق حکومت نے اپنے حصے کے بیس فیصد رقم سے منصوبے کا آغاز کریں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا جس کی خاص وجہ مقامی اور وفاقی بیورکریسی کی عدم دلچسپی اور عوامی نمائندوں کی نااہلی کے ساتھ متعلقہ ادارے کے ذمہ داران کے ساتھ کمیشن کا فکس نہ ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔ اگر ہم اس سڑک کی اہمیت کے حوالے سے بات کریں تو یہ روڈ نہ صرف بلتستان ڈویژن کی سات لاکھ کے قریب آبادی کیلئے واحد گزرگاہ ہے بلکہ یہ شاہراہ دفاعی ، عسکری اور سیاحتی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے دنیا کا بلند ترین محاذجنگ سیاچن، دنیا کی اہم ترین بلند پہاڑی سلسلے و چوٹیاں، کے ٹو،شنگریلا،دیوسائی اورکارگل سے ملحق اہم علاقے یہاں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ جب عسکری ضرروریات کیلئے جب مشکلات پیش آتے ہیں تو خصوصی طور پر عسکری ہیلی کاپٹرز کے ذریعے لاجسٹک کی سپلائی کی جاتی ہے۔ اس وقت گلگت سکردو روڈانتہائی ناگفتہ حالات کا شکار ہے جگہ جگہ گھڑے پڑ جانے سے گاڑیوں کی آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے اور منزل تک پہنچنے میں مزید گئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اس علاوہ گزشتہ سالوں میں اس سڑک کی خستہ حالی کے سبب کئی بار حادثات پیش آئے جس میں کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوالیکنحکومت وقت کے کانوں کوئی خبر نہیں ہوئی کیونکہ یہ عوامی مسلہ ہے ۔اس حوالے سے سابق حکومت نے کسی قسم کی پیشرفت کا مظاہرہ نہیں کیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہااُس وقت کے وزیراعظم کی وعدوں پر علمدرآمد کیلئے ہمارے سیاست دان اسلام آباد میں ڈھیرے ڈال دیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے نام نہاد نمائندگان کے حوالے سے ایک خاص بات مشہور ہے کہ یہ لوگ صرف مراعات کیلئے اسلام آبادکی چکر لگاتے ہیں۔موجودہ وفاقی حکومت نے بھی سابق وفاقی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے اس سڑک کی تعمیرکے حوالے سے الیکشن سے قبل بلکل اُسی انداز میں اعلانکیا اور اس مرتبہ کہا گیا کہ اس روڈ کی تعمیر کیلئے ایشائی بنک کے بجائے ایک چینی ایگزام بنک پچاسی فیصد فنڈنگ کریں گے اور باقی پندرہ فیصد وفاقی حکومت برداشت کرے گی اور ہنگامی بنیادوں پر اس سڑک کی سنگ بنیاد رکھی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی حکومت کی تشکیل کے بعد ماند پڑگئی اور اس حوالے سے کہیں بحث ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سڑک ہمارے ہی سیاسی نمائندوں کی نااہلی کے سبب آج بھی مقامی اور غیر مقامی بیورکریسی کی بلتستان دشمنی کا شکار ہے مگر ارباب اقتدار میں اتنی ہمت اور اختیار نہیں کہ وفاق میں بیٹھ کر ایسے سازشی عناصر سے مقابلہ کریں جو کہ بلتستان کے عوام کیلئے ایک پریشان کن صورت حال ہے۔لیکن ان تمام مسائل سے ہٹ کر کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جسے قاری سرکار باآسانی سے حل کرسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو گلگت سکردو روڈ پر بڑھتے ہوئے حادثات میں بھی کمی آسکتی ہے۔سب پہلی بات اس روڈ پر آج بھی پولیس اور ریکسیو کی مناسب پیٹرولنگ کا انتظام نہیں لہذاقاری سرکار کو چاہئے کہ اس روڈ پر پیٹرولنگ کو یقینی بنائیں تاکہ ناگہانی صورت حال میں بروقت امدا فراہم کرسکے۔دوسری بات یہ ہے کہ اُن تمام خطرناک موڑ پر سولر لایٹنگ کا انتظام کریں تاکہ رات کے وقت سفر کرنے والوں کو معلوم ہو کہ یہ جگہ خطرناک ہے اورجہاں حادثادت کے مواقع ذیادہ موجودہے وہاں سو میٹر پہلے سے سپیڈ بریکر کویقینی بائیں تو امید قوی ہے کہ حادثات کی شرح میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔اس کے علاوہ تما م موڑوں پر واضح انداز میں علامتی خطرہ بورڈ نصب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئے آنے والا پہلے ہی احتیاط کریں۔اگرقاری سرکار بلتستان کے عوام پر احسان کرکے مندرجہ بالا اہم نقاط پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنائیں تو مزید زندگیاں گل ہونے سے بچ سکتا ہے۔آخر میں قاری حفیظ سے خصوصی طور پر ایک اور گزارش ہے کہ اگر وہ مہدی شاہ کی طرح میں ماضی میں گھم ہونا نہیں چاہتے تو بلتستان سے محبت کی اظہار کو اخباری بیانات کی دنیا سے نکال کر عملی طور پر کچھ کر کے دکھاتے ہوئے سالانہ بجٹ میں جوغیر ترقیاتی اخراجات کے نام پر جیب خرچے کیلئے اکیس ارب سے ذیادہ رقم مختص کررکھی ہے اُس میں سے ہنگامی بنیاد پرکچھ حصہ اس سڑک پر خرچ کریں تو بلتستان کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ اور یہ بھی گزارش ہے کہ سکردو کارگل سڑک کو منقسم خاندان کی سہولت اور تجارتی غرض سے کھولا جائے تو گلگت بلتستان کی معیشت پر کافی مثبت اثر پڑھ سکتا ہے لوگوں کو ذیادہ سے ذیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہونگے لہذا اس روڈ کو کھولنے کیلئے بھی قیاس آرائیایوں میں پڑنے کے بجائے کچھ اہم اقدمات کرنے ہونگے۔