کالمز

’’تھکے ہارے لوگ اور عید‘‘

hayatاس بار بھی عید آئے گی۔خوشیاں بھی ساتھ لائے گی۔تیاریاں ہونگی۔شادمانیاں ہونگی۔نظارے دیکھنے کے لائق ہونگے۔بچے کھیل رہے ہونگے۔گھروں کو دلہنوں کی طرح سجایا جائے گا۔قربانی کے جانوروں کی آرائش ہوگی۔پھول بچوں کے دیمانڈ والدین پورے کررہے ہونگے۔جوڑے سلے ہوئے ہونگے۔گھر گھر جانے کی تیاریاں ہونگی رشتے ناتے یاد آرہے ہونگے۔تعلقات تازہ ہورہے ہونگے۔یاردوست پروگرام بنارہے ہونگے۔۔۔لیکن ایک ٹینٹ کے سامنے جنید گم سم بیٹھا ہے۔پانج سال کا پھول مرجھا گیا ہے۔اس کی معصوم آرزویں مٹ گئیں ہیں۔اس کا گھر بار خوبصورت صحن،باغ،باغیچے سب ہزاروں ٹن مٹی کے نیچے دب گئے ہیں۔۔۔مگر اس کی افسردگی دو وجہ سے ہے۔۔۔۔اس کا ساتھی سہیب کہیں نہیں۔۔۔۔کوئی بتاتا بھی نہیں کہا ں گیا۔اس کے علاوہ اس کے سارے کھیلونے ضائع ہوگئے۔اس کی سائیکل جس پر باری باری وہ اور سہیب سواری کرتے۔سیلاب میں بہہ گئی۔۔۔۔وہ پژمردہ ہے،افسردہ ہے،وہ لق ودق صحرا میں ٹینٹ کے سامنے بیٹھا ہے۔ماں بلائیں لیتی ہے۔باپ ڈھارس بندھاتی ہے۔بہنیں حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔مگر وہ گم سم ہے گویا زندگی جنگ ہار گیا ہے۔سہیب اور کھیلونے دونوں یاد آتے ہیں۔ابو سارادن اپنے تباہ شدہ گھر کا چکر لگاتا ہے۔ہزاروں من مٹی کے نتیجے اس کے گھر کی یادیں آتی ہیں۔وہ بڑی چاؤ سے گھر سجایاتھا۔وہ مہمان خانہ،وہ باغیچہ وہ پھول سجاوٹ کے سامان وہ سب کچھ۔۔۔۔اگر خود جنید سیلاب میں بہہ جاتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔یہ سوچتے ہی وہ دوڑ کر سہیب کے ابو کے پاس پہنچتا ہے۔۔۔سہیب کے ابو سہیب کو گود میں لئے بچانے کے لئے دوڑ رہا تھا کہ گرگیا۔سیلاب نے سہیب کو اس سے چھین لیا۔۔۔۔یہ اس کے پاس پہنچتا ہے وہ جنید کا پوچھتا ہے ۔اور آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہا کے کہتا ہے کہ تو خوش قسمت ہے۔دونوں اُٹھتے ہیں اور تباہ شدہ گاؤں میں آگے بڑھتے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ گاؤں کا ایک بوڑھا کدال لے کہ ملبے کو ہٹانے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔پوچھنے پر کہتا ہے۔۔۔زندگی کے آخری لمحوں میں یوں دیکھنا نصیب میں تھا۔بوڑھا بے اولاد ہے۔۔۔۔آگے بڑھتے ہیں ایک جھونپڑی نما گھر کے قریب پہنچتے ہیں۔دیکھتے ہیں ایک بڑھیا جھونپڑی کے سامنے پُرانی لالٹین صاف کررہی ہے۔شیشی بھی نہیں ہے۔کہہ رہی ہے کہ رات کو بتی جلاتے ہیں۔اس کی روشنی میں کھانا کھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔وہ بجلی کی یاد میں آنسو بہاتی ہے۔۔۔۔آگے بڑھتے ہیں تو لب دریا سے خواتین دریا کا گندلا پانی گاگر میں بھریں آہیں بھرتی ہیں۔وہ پانی کے صاف چشمے اور وہ پانی لائنوں کا صاف پانی خواب بن گیا ہے۔وہ گاگراُٹھانے کی ناکام کوشش کررہی ہیں۔اور دریا کی بے رحم موجوں کے شور میں ان کی آہیں تحلیل ہوجاتی ہیں۔کچھ آنسو آنکھوں میں تیر رہے ہیں۔کچھ گالوں سے گر رہے ہیں۔۔۔۔ آگے بڑھتے ہیں ایک معزز ترین بزرگ آٹے کی بوری کاندھوں پہ اُٹھائے ٹینٹ کی طرف جارہا ہے سستانے کے لئے چٹان پہ رکھتا ہے۔اور قریب بیٹھ کے پسینہ پونچھتا ہے۔اور دور اُفق پہ آنکھیں جمادیتا ہے۔پھر دبے لہجے میں کہتا ہے۔۔۔۔’’امداد‘‘پھر اس کاخوشحال گھرانہ اس کو یاد آتا ہے۔اس کی فصلیں،اس کے میوے،اس کی سبزیاں۔۔۔ایک موٹا آنسو دائیں آنکھ سے ہوتا ہوا گال کے راستے خشک صحرا کی خشک مٹی پہ گرتا اور جذب ہوجاتا ہے۔دور نیچے لبِ دریا خواتین پانی سے بھری گاگر کاندھوں اور سرپر اُٹھا ئے چھڑائی چھڑ رہی ہیں۔بوڑھا بزرگ کہتا ہے۔۔۔مولیٰ سردیاں آرہی ہیں۔سخت برف باری اور کڑکتی سردی میں ٹینٹ میں گذارا کیسے ہوگا۔۔۔۔ناتوان جان ہے۔بیماریاں بھی ہیں۔۔۔۔یکلخت تینوں اُٹھتے ہیں۔اپنی اپنی ٹینٹوں میں پہنچتے ہیں۔۔۔جنید ٹینٹ کے سامنے آفسردہ بیٹھا ہے۔باپ اس کے قریب جاتا ہے۔۔۔کپڑوں کا پوچھتا ہے جنید سرہلا کے نہیں کہتا ہے۔کھیلونوں کا پوچھتا ہے وہ سرہلا کے نہیں کہتا ہے۔۔سائیکل کا کہتا ہے تو توتلی زبان گویا ہوتی ہے۔۔۔کہاں لے کے شائیکل چلاؤں۔۔۔۔راشتہ نہیں ہے۔میں تمہارے لئے بیابان میں راستہ بناؤنگا۔لیتن لیتن میرے شاتھ شائیکل تون چلائے گا۔۔۔شہیب نہیں ہے۔۔۔۔اس کا ابو گونگا ہوجاتا ہے اس کو ایسا لگتا ہے کہ ساری کائنات تھک گئی ہے۔چاند تھک گیا ہے۔سورج راستے بھول گئے ہیں۔زندگی تھک گئی ہے۔اس لئے کوئی ٹینٹ کے سامنے ڈھیر ہوگیا ہے ۔کوئی ’’امدادی سامانوں‘‘کے راستے میں اوندھے منہ پڑا ہے۔کوئی دفتر کے سامنے سڑھ گیا ہے کسی کا گلا دھائی دے دے کر خشک ہوگیا ہے۔بازؤوں میں طاقت،آنکھوں میں روشنی،ٹانگوں میں پھرتی ختم ہوگئی ہے۔جب اس کی خاتون ٹینٹ سے باہر آتی ہے تو لگتا ہے کہ برسوں کی تھکی ہاری ہوئی ہے۔چہرہ مرجھاگیا ہے ۔ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔دونوں نیلی چھت پر آنکھیں جمائے نیلی چھت والے سے کسی غیبی امداد کے طلب گار ہیں۔کیونکہ عید آئے نہ آئے ۔چلچلاتی سردی برف کی سوغات لے کے ضرور آئے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button